حکومت کی طرف سے بدعنوان سیاسی و غیر سیاسی عناصر کے خلاف سخت احتساب کی کارروائی کے دعووں پر عمل درآمد شروع ہی ہوا تھا کہ جمہوریت پسندوں نے نیب کے چھاپوں سے گھبرا کر چیئرمین نیب سے گرفتاری کا اختیار واپس لینے کے ساتھ نیب کے قوانین میں ترمیم کی منظوری دے دی۔ نیب کو الٹا پڑھا جائے تو بین ہوجاتا ہے۔ اگر انگریزی کے نیب NAB کو الٹا کریں تو یہ بین BAN ہوجاتا ہے جس کے معنی پابندی یا منع کرنے کے ہیں۔ خیال ہے کہ نیب اب بین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نیب کو اردو میں الٹا پڑھنے سے جو بین بنا وہ بین اپوزیشن نے خوب کیا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت چونکہ یوٹرن لینے کے حوالے سے پہلے ہی بدنام ہے اس لیے اب یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے یا ان کی حکومت نے پھر یوٹرن لیا، میرا خیال ہے اس بار پورا ’’راؤنڈ اباوٹ‘‘ کاٹا ہے۔ کراچی میں تو سگنل فری سڑکیں مگر وفاقی حکومت اور ایوان بالا سینیٹ سمیت تمام ایوان تو اسلام آباد میں ہیں جہاں اب بھی سگنلز موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں ان کے اشاروں پر یوٹرن اور راؤنڈ ٹرن باآسانی لیے جارہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ وقتی تھا تو ایسے نعروں باتوں اور دعووں کا اس قدر ڈھندورا کیوں پیٹا گیا۔ جب ملک میں جاری جمہوریت ایسے سخت فیصلے برداشت ہی نہیں کرسکتی تھی تو پھر سخت احتساب کا شور کیوں مچایا گیا۔ کیا یہ صرف ملک کی بڑی پارٹیوں کے بڑے لیڈروں کو گرفتار کرکے سخت کارروائی کا اظہار کرنا تھا یا پھر بڑے ڈاکوؤں کو گرفتار کرکے چھوٹے چوروں کو خوفزدہ کرنا تھا۔ اگرچہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں حکومتی جماعت تحریک انصاف کا صرف ایک ہی رکن واجد اقبال ہیں جبکہ حکومتی اتحادی و دیگر 12 ارکان میں متحدہ قومی موومنٹ کے محمد علی سیف، مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ، مسلم لیگ نواز کے دو، پیپلز پارٹی کے تین ارکان شامل ہیں۔ نیب کے قوانین میں ترمیم کی قرارداد کے پیپلز پارٹی کے فاروق نائیک نے پیش کی تھی۔ چونکہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے ارکان کا غلبہ ہے اس لیے اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں نیب کے قوانین میں ترمیم کے لیے پیش کی گئی قرارداد منظور ہونا کوئی حیرت انگیز امر نہیں ہے۔ اصل بات تو جب ہوگی کہ یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ کہا جاسکے گا کہ نئے پاکستان کے دعویدار حکمرانوں کے دور میں کرپشن کو بھی درجات میں تقسیم کردیا گیا جو ایک مذاق سے کم نہیں ہوگا۔ یہ مسخرا پن ہی تو ہے کہ مجوزہ قانون کے تحت 50 کروڑ یا اس سے کم رقم کی بدعنوانی کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کیا جارہا ہے۔ قانون و انصاف کے وفاقی وزیر فروغ نسیم کو اس قانون سازی کے دوران یہ وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ اگر کوئی شخص 50 کروڑ یا اس کم کی ایک سے زائد وارداتیں کر جائے تو کیا پھر بھی وہ نیب کی گرفت سے بچا رہے گا؟ اگر ایسا ہی ہوا تو یہ بات کرپٹ عناصر کے خاتمے کی نہیں بلکہ ان کو سہولت فراہم کرنے کی ہوگی۔ کرپشن کے مقدمات میں ڈوبی ہوئی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے ایسی ہی قانون سازی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ عام ووٹرز کو تو شاید یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ انہوں نے جن پارٹیوں کو ووٹ دے کر ایوانوں میں بھیجا ہے وہ وہاں جاکر کیا کچھ صرف اپنے مفاد میں کررہے ہیں۔
19 ستمبر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے اتفاق رائے سے قومی احتساب بیورو آرڈی ننس میں اپوزیشن کے ترمیمی بل کی منظوری دے کر جمہوری حکومتوں کی موجودگی کے بڑے فائدے کا اظہار بھی کردیا۔ اس فیصلے کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی بل کی حمایت کی۔ بل کے تحت سب سے اہم اور کرپٹ عناصر کو فائدہ پہنچانے کی بات تو یہ ہے کہ الزام لگنے پر اور دوران تفتیش کسی کو گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔ اب یہ تو وزارت قانون ہی بتاسکتی ہے کہ کرپٹ عناصر کو فوائد پہنچانے کے لیے صرف گرفتار نہ کرنے ہی کی ضمانت اس بل کے تحت دی جارہی ہے یا انہیں اور بھی سہولتیں ہوں گی۔ مثلاً وہ ملک سے باہر بھی جاسکے گا اور حکومت میں وزیر یا مشیر کچھ اور ہو تو اسے سرکاری ذمے داریوں سے فارغ بھی نہیں کیا جاسکے گا۔
50کروڑ روپے یا اس سے کم بدعنوانی کا مقدمہ نیب کے دائرہ کار میں نہیں ہوگا جبکہ اس سے زائد مالیت کی کرپشن کی صورت میں بھی ریفرنس دائر ہونے تک نیب افسران اسے لیک نہیں کریں گے۔ 90دن کے بجائے 60 دن میں انکوائری، تحقیقات ختم کی جائے گی، نیب اس دوران گرفتار نہیں کر سکے گا، تحقیقات ختم ہو نے کے بعد ریفرنس دائر کیا جائے گا، جس کے بعد عدالت سمن یا قابل ضمانت وارنٹ جاری کرے گی اور ملزم آکر مچلکہ دے گا اور وہ پیش نہیں ہوتا تو پھر ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں گے، پلی بارگین عدالت کی اجازت سے ہو گی، پلی بارگین کرنے والے کو سزا نہیں ہو گی اور اگر وہ پبلک آفس ہولڈر ہے تو صرف 5سال کے لیے نااہلی ہوگی اگر سرکاری ملازم ہے تو اسے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ مجوزہ بل کے یہ نکات پڑھنے کے بعد میرا دل چاہ رہا تھا کہ تالیوں کی گونج میں یہ گانا بھی گایا جائے کہ ’’آئی رے آئی رے تبدیلی آئی رے۔۔ کرپشن کی قانونی بہار آئی رے‘‘۔
اس قانون کے تحت خوفزدہ کرپٹ عناصر کو نہیں کیا گیا بلکہ اس کے خلاف تحقیقات کرنے اور الزام لگانے والے کو خوزدہ کیا گیا ہے۔ مجوزہ قانون کے مسودے کے مطابق غلط الزام لگانے یاغلط تفتیش کرنے والے نیب افسر کو بھی جواب دہ بنایا گیا ہے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک بل کے محرک تھے۔ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر جاوید عباسی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے منظور ہونے والے اس بل کا قومی اسمبلی میں کیا بنتا ہے۔ اگر یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوگیا تو یہ یقین کرنا پڑے گا کہ ’’سخت احتساب ہوا، اب نرم احتساب کی خوش فہمی میں مبتلا رہیں۔ قوم کو سخت احتساب کا جھانسا دینے والوں سے اللہ ہی نمٹے گا۔