کراچی (رپورٹ: محمد انور) میئر کراچی وسیم اختر اختیارات نہ ہونے کے باوجود بعض ایسے خلاف قانون اقدامات کے مرتکب ہو رہے ہیں جو کے ایم سی اور اس سے منسلک ذیلی اداروں کے نظم و نسق کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں۔ نمائندہ جسارت کی تحقیقات کے مطابق اختیارات اور مالی وسائل نہ ہونے کا رونا رونے والے میئر وسیم اختر کا خلاف قانون احکامات دینے اور اس پر عمل درآمد کرانے میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔ گوکہ وہ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر قوانین کو بھی نظر انداز کررہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وسیم اختر کے ایم سی کے ذیلی اور واحد ادارے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج بنیادی نظام خراب کرنے میں براہ ملوث ہوچکے ہیں۔ ان کے تحریری حکم سے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (کے ایم ڈی سی) کا پرنسپل ایک ڈینٹل سرجن ڈاکٹر محمود حیدر کو متعین کیا ہوا ہے جو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل (پی ایم ڈی سی) کی مروجہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ڈاکٹر محمود حیدر کا تقرر مبینہ طور پر میئر کی ذاتی دلچسپی کے تحت کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمود حیدر مبینہ طور پر برطانیہ کی دہری شہرت بھی رکھتے ہیں جبکہ ان کی قابلیت صرف ڈینٹل سرجن کی ہے۔ جسارت کی تحقیقات کے مطابق کے ایم ڈی سی کے کے سیکرٹری اکیڈمک کونسل کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی رجسٹرار ڈاکٹر ستارا حسنہ نے ایک انکوائری کے جواب میں اس سال فروری میں ہی مطلع کر دیا تھا کہ کسی بھی میڈیکل و ڈینٹل کالج کے پرنسپل لیول تھرڈ کے کوالیفائڈ پروفیسر کو ہی پرنسپل لگایا جاسکتا ہے جبکہ اسی لیول کے ڈینٹل سائنس کے پروفیسر کا تقرر نہیں کیا جاسکتا۔ اس جواب کے باوجود دینٹل سرجن کو کے ایم سی ڈی کے پرنسپل کی اہم اسامی سے فارغ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے میڈیکل و ڈینٹل کالج کا نظام خراب ہورہا ہے۔ مذکورہ پرنسپل کے دور میں کالج کے اساتذہ و دیگر عملے کو تنخواہیں نہیں مل رہیں جبکہ اکیڈمک و دیگر مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ میئر وسیم اختر سے قبل کالج میں تنخواہیں نہ ملنے کی کوئی شکایت نہیں تھی تاہم مالی صورتحال کنٹرول میں رکھنے میں ناکامی کے بعد میئر نے کے ایم ڈی سی کی ماہانہ گرانٹ دینا بند کردی ہے، جو ان کے اختیارات میں بھی نہیں تھا۔ اس ضمن میں جب نمائندہ جسارت نے ڈاکٹر محمود حیدر سے رابطہ کیا اور ان سے خلاف قانون تعیناتی پر سوال کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ میں ابھی مصروف ہوں کچھ دیر بعد آپ کو کال کرتا ہوں مگر پھر ان کی کال نہیں آئی۔ تحقیقات کے مطابق میئر نے اپنے اختیارات کے تحت مشیر مالیات کی اسامی پر ایک ایسے ایم بی ایس ڈاکٹر اصغر عباس کو فنانشل ایڈوائزر کی اہم اسامی پر ڈیوٹی جوائن کرنے کا حکم دے دیا جن کو حکومت سندھ نے نہ صرف جعلسازی کے الزام میں معطل کردیا تھا بلکہ انہیں سروس کی مدت پوری ہونے پر ریٹائرڈ بھی کردیا تھا۔ مذکورہ ڈاکٹر قوانین کے تحت ایف اے کی اسامی کے لیے اہل بھی نہیں ہے۔ جبکہ کے ایم سی کے بعض افسران کا کہنا ہے کہ ادارے کو مالی بحران سے دوچار کرنے میں بھی مذکورہ مشیر مالیات کا بڑا کردار ہے۔ میئر کا یہ کہنا کہ وہ اختیارات نہیں رکھتے بے بنیاد ہے کہ انہوں نے ادارے کی گریڈ 19 کی سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ، ڈائریکٹر لینڈ ، ڈائریکٹر کونسل ، ڈائریکٹر اسٹور سمیت کئی دیگر اسامیوں پر جونیر افسران کو او پی ایس کی بنیاد پر تعینات کیا ہوا ہے جبکہ 19 گریڈ کے ایک درجن سے زاید افسران کو بغیر تقرر کے بٹھایا ہوا ہے۔ ڈائریکٹر ویٹرنری کی اسامی پر اہل ڈاکٹر کو ہٹاکر غیر قانونی ترقی حاصل کرنے والے جمیل فاروقی کو تعینات کردیا جنہیں بعدازاں سینئر ڈائریکٹر ایچ آر ایم کی اہم اسامی کی اضافی ذمے داریوں سے بھی نواز دیا گیا۔ محکمہ فائر بریگیڈ میں چیف فائر آفیسر کی اسامی پر بھی گریڈ 17 کے اسٹیشن افسر کو او پی ایس کی بنیاد پر گزشتہ 2 سال سے تعینات کیا ہوا ہے۔ میئر اختیارات نہ ہونے کے باوجود چہیتے گریڈ 20 کے افسر مسعود عالم کو سینئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کی غیر قانونی اور 2 افسران محمد عمران اور فرید تاجک کو ڈائریکٹر کوآرڈینیشن مقرر کیا ہوا ہے ساتھ ہی سندھ سوشل سیکورٹی کے ایک لوئر گریڈ کے ملازم ریحان کو بھی اپنا ’’خاص ‘‘ کارندہ مقرر کیا ہوا ہے۔ ریحان اپنے ادارے کے بجائے کے ایم سی میں کیوں ڈیوٹی ادا کرتا ہے اس بارے میں اس سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کے ایم سی کے ڈائریکٹر میونسپل سروسز کی اسامی پر بھی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا افسر نعمان ارشد عدالت عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہنوز خدمات انجام دے رہا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کے ایم سی کے چیف ایگزیکٹو میٹروپولیٹن کمشنر کی اسامی بھی غیر فعال ہے بلکہ اس اسامی پر تعینات گریڈ 20 کے پی اے ایس آفیسر مبینہ طور پر ہر اہم معاملے سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ یہ افسر غیر متعلقہ افراد سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جس کا ثبوت نیب کے چھاپے کے دوران سامنے آچکا ہے۔ چھاپے کے وقت میٹروپولیٹن کمشنر اپنے دفتر کے بجائے باغ جناح فریئر ہال میں موجود غیر قانونی مشیر باغات لیاقت قائم خانی کے دفتر میں موجود تھے۔ نیب نے ان ہی کی موجودگی میں لیاقت قائم خانی کو گرفتار کیا تھا جن کی نشاندہی پر کروڑوں روپے مالیت کے زیورات ، کرنسی اور گاڑیاں قبضے میں لی گئیں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت سندھ نے بھی بلدیہ کراچی کی بے قاعدگیوں اور خلاف قانون امور چلانے پر تاحال کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی ہے۔
جسارت تحقیقات