کشمیر کا بحران صرف جہاد سے حل ہوگا

223

اِن دنوں وزیراعظم عمران خان کی کشمیر کاز سے ’’کمٹمنٹ‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وہ کشمیریوں کا مقدمہ عالمی سطح پر بڑی بے جگری سے لڑرہے ہیں۔ انہوں نے مودی کو دورِ حاضر کا ہٹلر قرار دے کر اس کے منہ پر ایسی کالک مل دی ہے کہ وہ منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ یہ ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اٹھاون ممالک نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کی مذمت کی ہے اور اس سے کرفیو اُٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ بھارت پر اس مطالبے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ عمران خان کی کشمیر کاز سے کمٹمنٹ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے قوم کے شدید مطالبے کے باوجود ابھی تک بھارت کے لیے فضائی حدود اور تجارتی راہداری بند نہیں کی کہ کہیں اس کا کشمیریوں کی جدوجہد پر منفی اثر نہ پڑے اور کہیں وہ بھارت کے خلاف حوصلہ نہ ہار دیں اب تازہ ارشاد ان کا یہ ہے کہ جو پاکستانی مقبوضہ کشمیر جا کر بھارت سے لڑیں گے وہ کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کریں گے۔ مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ کشمیریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، ان کی ہرگز کوئی عملی مدد نہ کی جائے، اگر ایسا ہوا تو ان کی قوت مزاحمت کمزور پڑ جائے گی اور وہ بھارت کے مقابلے میں زیادہ دیر کھڑے نہ رہ سکیں گے۔ دوسری طرف کشمیریوں کی سادہ لوحی دیکھیے کہ وہ مسلسل پاکستان اور پاکستانی فوج کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ ان کے درو دیوار پاک فوج کے لیے خیر مقدمی نعروں سے گونج رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے صدر برملا کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے ہمارے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے لیکن ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمیں بھارت کے خلاف لڑنا ہے یا نہیں، ہم اس انتظار میں ہیں کہ جب تک بھارت آزاد کشمیر پر حملہ نہیں کرتا ہم اس کی جارحیت کا جواب نہیں دیں گے۔ حالاں کہ ہم مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہیں اور کشمیری خود کو پاکستان کے شہری سمجھتے ہیں۔ اِن شہریوں کا بھارت نے دو ماہ سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ کرفیو کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا کر بھارت نے کشمیریوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ انہیں بھوکا مارا جارہا ہے
اور جان بچانے والی ادویات کے نہ ملنے سے بھی مریض دم توڑ رہے ہیں۔ دس بارہ سال کے بچوں کو گھروں سے اُٹھایا جارہا ہے، یہ بچے آبادی کا بیس فی صد ہیں اس طرح بیس فی صد آبادی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، نوجوانوں کو گرفتار کرکے بُری طرح تشدد کیا جارہا ہے، عورتیں اغوا اور ان کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں۔ آر ایس ایس کے غنڈوں کو منظم انداز میں پورے مقبوضہ کشمیر میں پھیلا دیا گیا ہے جو قابض فوج کی نگرانی میں اپنا شیطانی کھیل کھیل رہے ہیں۔
یہ ہے وہ صورت حال جس میں پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ اس کی سیکورٹی کونسل، امریکا، برطانیہ، روس، یورپی یونین، اسلامی ملکوں کی تنظیم ’’او آئی سی‘‘۔ سب تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھ کر بھارت کا ہاتھ پکڑ لے اور اسے کشمیریوں کے خلاف جارحیت سے روک دے۔ عالمی برادری کی اس منافقت کا واحد مقصد بھارت کو واک اوور دینا اور کشمیریوں کے خلاف بھارت کے منصوبوں میں اس کی مدد کرنا ہے۔ کشمیریوں کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور مسلمان کے خلاف پوری دنیا کی کفر کی طاقتیں ’’ملتِ واحدہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اہل کشمیر کو صرف بھارت ہی نہیں، کفر کی متحدہ قوت کا سامنا ہے اور اس قوت سے صرف اسلام کا نظریۂ جہاد ہی نمٹ سکتا ہے۔ یہ جہاد ہی ہے جس نے افغانستان میں کفر کی متحدہ قوت (امریکا اور ناٹو ممالک) کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا ہے، اب کفر کی متحدہ قوت کو یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی جہاد اپنا کرشمہ نہ دکھا دے۔ امریکا، ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف اور دیگر تمام عالمی اداروں اور ملکوں کی کوشش ہے کہ مجاہدین کشمیر کا رُخ نہ کرنے پائیں۔ عمران خان نے بھی سادہ لوحی میں اپنے حالیہ بیان میں ان کی ہمنوائی کی ہے جس پر امریکا کی بانچھیں کھل گئی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان ان دنوں امریکا میں ہیں وہ اقوام متحدہ میں کشمیریوں کا مقدمہ بلاشبہ بے جگری سے لڑیں گے لیکن قیاس کہتا ہے کہ جب وہ واپس آئیں گے تو مذاکرات کا لالی پاپ ان کے منہ میں ہوگا اور وہ اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیں گے۔ حالاں کہ مذاکرات کا تلخ تجربہ ہم بار بار دہرا چکے ہیں۔ کشمیر کا بحران جہاد اور صرف جہاد سے حل ہوگا۔