پانچ اگست اب کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم باب بن چکا ہے‘ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوا ہوگا جہاں پوری کی پوری بستی گھروں میں نظر بند کردی گئی ہو‘ یہ کام مقبوضہ کشمیر میں ہوا‘ ظلم کی انتہاء‘ اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ ہمیں شعیب ابی طالب کا بھی ملتا ہے‘ کفار مکہ نے جب لوگوں کو اللہ کی جانب بلانے والی عظیم قیادت اور پیروکاروں پر زندگی تنگ کردی تھی‘ تب نبی آخر الزماںؐ نے یہ دن کیسے گزارے یہ سب آج تاریخ میں محفوظ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی آج صرف کلمہ گو ہونے کی وجہ سے گھروں میں قید کر دیے گئے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید ایسے لوگوں کی مدد کے لیے ہر انسان کو پکارتا ہے کہ وہ آگے بڑھے کہ وہ لوگ جنہیں کمزور جان کر گھیر لیا گیا ہے ان کی مدد کی جائے‘ اسلامی دنیا نے کیا رد عمل دیا‘ اس پر اب افسوس کے سوا کچھ اور نہیں کیا جاسکتا‘ چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی بھارت کی عدالت عظمیٰ نے ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر کی جانب سے جموں و کشمیر میں پابندیاں ختم کرنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی عدالت نے حکم دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی جلد سے جلد بحال کرنے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔ عدالت میں یہ بھی مکالمہ ہوا کہ یہ درخواست جموں و ہائی کشمیر کی ہائیکورٹ سے متعلق ہے جسے وہ بھی دیکھ سکتی ہے، اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ تک جانا بہت مشکل ہے۔ بھارتی چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیے کہ جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ تک جانا کیوں مشکل ہے؟ کیا کوئی راستے میں آرہا ہے؟ ہم جموں و کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے یہ جاننا چاہتے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو خود جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ جائوںگا۔
عدالت عظمیٰ نے کانگریس رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی وادی کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی اور شہریوں سے ملاقات کرنے اور ان کو طبی سہولتوں کی فراہمی کو چیک کرکے وادی کی زمینی صورتحال پر رپورٹ دینے کا بھی کہا‘ بھارتی سرکار نے عدالت میں بھی جھوٹ بولا کہ کہیں کوئی پابندی نہیں‘ ہر جگہ آزادی ہے مودی سرکار کی طرف سے صرف عدالت عظمیٰ ہی میں نہیں‘ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے بھی جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ دنیا کو باور کرایا جارہا ہے کہ مقبوضہ وادی میں سب ٹھیک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سب ٹھیک نہیں ہے وہاں کشمیریوں کی آہیں اور سسکیاں ہیں عالمی میڈیا اس کی گواہی دے رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے آج51 روز گزر گئے ہیں وادی میں مواصلات کا نظام مکمل طور پر معطل ہے۔ ٹیلی فون سروس بند ہے ذرائع ابلاغ پر بدستور سخت پابندیاں عائد ہیں۔ اسکول اور تجارتی مراکز بھی بند ہیں بھارتی عدالت عظمیٰ نے جھوٹ بولنے والی مودی سرکار سے کہا ہے کہ ہر اقدام لینے سے پہلے ملکی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو چاہیے کہ اب عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرائیں۔
بھارتی حکومت نے ایک کروڑ آبادی کو ڈیڑھ ماہ سے انسانی حقوق‘ ادویات‘ خوراک سے یکسر محروم کر رکھا ہے اور مہلک اور جدید اسلحہ سے لیس نو لاکھ سے زائد سفاک فوجی مسلط ہیں پوری وادی جکڑی ہوئی ہے اس وادی کی آواز بننے کے لیے راولپنڈی میں خوشبو تنظیم نے بھی ایک محفل سجائی‘ محترم لیاقت بلوچ اس میں مہمان خصوصی تھے‘ قلم کار‘ شاعر‘ ادیب سب کشمیر کے لیے حاضر تھے وہاں ایک ہی بات ہوئی کہ مودی سرکار اور وادی میں تعینات بھارتی فورسز ہر کشمیری کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں بھارتی حکومت کی مجرمانہ ذہنیت اور اس کی فورسز کی درندگی سے تمام تر پابندیوں کے باوجود دنیا آگاہ ہے، پاکستان میں حکومت قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے بجائے گوئیوں سے کام لے رہی ہے۔ مظفر آباد میں جن کی سیلفیوں نے کشمیریوں کے دکھوں میں اضافہ ہی کیا کہ یہ سیلفیاں مذاق ہیں اور سنگین مذاق‘ بھارتی عدالت عظمیٰ پر بھی کشمیریوں کے ساتھ مودی سرکار کا ظالمانہ سلوک عیاں ہوا ہے ہماری حکومت بھارتی عدالت کے فیصلے سے کتنا فائدہ اٹھاتی ہے یہ بھی ایک سوال ہے اسے ایک مضبوط قومی اتفاق رائے ہی سے فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے اس پرخاموشی معنی خیز رہے گی صرف بیان بازی تک محدود رہا گیا تو یہ ظلم ہوگا۔