اس ملک میں کوئی قانون ہے جو درندوں کو قابو کرسکے۔ کسی کو اس درندگی کی فکر ہے جو ہر گرفت سے آزاد ہے۔ عجب حکومت ہے اور عجب اہلکار۔ چلیے تسلیم جہاد سے ڈر لگتا ہے، جنگ کرنا عادت نہیں رہی، اہل کشمیر سے کنارہ کش ہونے میں ہی عافیت ہے، مرتے ہیں تو مریں ان کی خاطر امریکا اور مودی کو تو ناراض نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ جو اندرون ملک وحشی نکل نکل کر آرہے ہیں انہیں تو زنجیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے تو امریکا کی اجازت درکار نہیں۔
جنوری 2018 میں زینب قتل کیس سامنے آیا تو پتا چلاکہ ہماری گلیاں، راستے، شاہراہیں، گھر اور بستیاں ہمارے بچوں کے لیے کتنی نامہربان اور غیر محفوظ ہیں۔ زینب کا قاتل کہیں باہر سے نہیں آیا تھا۔ وہ ہمارے اندر، ہمارے درمیان موجود تھا۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا مگر کم، لیکن اب… اب تو یہ معمول بنتا جارہا ہے۔ قاتلوں کو رعایت دینے کے معاملے میں ہم سا سخی دنیا میں نہ ہوگا۔ ہمارے بچوں کو بے حرمت کردیا جائے، گلا گھونٹ کر مار دیا جائے، اعضا کاٹ کاٹ کر ادھر ادھر بکھیر دیے جائیں، کمانیں چڑھ جاتی ہیں، غصہ بے قابو ہوجاتا ہے، زبانیں چیخنے لگتی ہیں، قانون حرکت میں آجاتا ہے، حکام داد رسی کے لیے پہنچ جاتے ہیں، کیمرے آن ہوجاتے ہیں، میڈیا پر ہیڈ لائنز دہائیاں دینے لگتی ہیں۔ ٹاک شوز قانون کی شکست کے کھوج میں نکل پڑتے ہیں۔ نامہربان بستیوں کا ایک ایک فرد برسر احتجاج آجاتا ہے لیکن کتنے دن؟ کوئی نیا سانحہ، ٹرمپ کا بیان، حکمران کی ورلڈ کپ کی فتح اس کی جگہ لے لیتی ہے اور پھر سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے۔ قاتل کو پھانسی کے ذکر ہی سے انسانیت کے نام لیوا غرانے لگتے ہیں، قانون کے رکھوالوں کے ڈھکوسلے روز ایک نئی کاروائی ڈال دیتے ہیں۔ ڈی این اے ٹیسٹ، فُلانے ٹیسٹ ڈھمکانے ٹیسٹ، روز اک نیا سراغ نیا دعویٰ، نئی ویڈیو پھر بتدریج سب کچھ موم۔ ایک آنکھ سے ہنسنا ایک آنکھ سے رونا، شہر شاداں وفرحان، خوشیاں، خوشبوئیں اور خوش جمال، ان کے قصے اور ہماری دلچسپیاں۔
دوماہ سے قصور پھر خبروں کا موضوع ہے۔ حوالہ حسن وخوبی سے سجی کوئی آواز ہے اور نہ بے مثل مہک۔ حوالہ وہی درندگی ہے جس کا سن کر بھی انسانیت کانپ اٹھتی ہے۔ پہلے قصور کی تحصیل چونیاں سے ایک بچے محمد عمران کے غائب ہونے کی خبر آئی۔ پھر ایک آٹھ برس کے بچے کے اغوا کی سنائی آئی۔ اس خبر کو چند دن ہی گزرے تھے کہ اطلاع آئی کہ چونیاں میں تین بچے غائب ہیں والدین احتجاج کررہے ہیں۔ سڑک بلاک۔ یہ احتجاج ہو ہی رہا تھا کہ اسی دوران ننھے فیضان کی گم شدگی کی خبر آگئی۔ اسی دن شام چار بجے فیضان کی لاش مل گئی۔ دیگر بچوں کی باقیات کا بھی سراغ لگا لیا گیا۔ وہی پرانی کہانی، بچوں کے ساتھ پہلے زیادتی، تشدد اور پھر قتل۔ جس جگہ سے بچوں کی لاشیں ملیں وہ تا حد نگاہ ویران علاقہ تھا۔
اس معاملے کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ چانڈکا میڈیکل کالج کی طالب علم نمرتا کی مبینہ خود کشی کا واقعہ منظر پر چھا گیا۔ اس ہنستی کھیلتی، مسکراتی مستقبل کے سپنے سجائے بچی کا ملال کم نہ ہوا تھا کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کتوں کے کھا جانے کی وجہ سے لاڑکانہ کے میرحسن ابڑو کی تڑپ تڑپ کر مرجانے کی ویڈیوز نے ہمت توڑ کر رکھ دی۔ میر پور خاص کے واقعے کو بیان کرنے کو کلیجہ چاہیے۔ یہ واقعہ نہیں انسانی قدروں کی میت ہے۔ انسانیت پر یقین کا خاتمہ ہے۔ ہماری بستیوں میں کوئی آدمی نہیں۔ دس سالہ بچے کی لاش پہنچانے کے ایمبو لنس نے دوہزار مانگے۔ باپ اور چچا کے پاس محض تین سو روپے تھے۔ وہ ہاتھ جوڑتے رہے گڑ گڑ اتے رہے کسی کو رحم نہ آیا۔ مجبوراً اس ویران زمین اور تاریک آسمان تلے باپ اور چچا اکڑے ہوئے بچے کی لاش موٹر سائیکل پر لے کر چلے۔ یہ مہیب اور خوف ناک سفر نہیں ایک بڑا سانحہ تھا۔ اس کے بعد ایک اور سانحہ پیش آیا۔ ایک چھوٹا سا نحہ۔ موٹر سائیکل وزن برداشت نہ کرسکی۔ ایکسیڈنٹ ہوا جس کے نتیجے میں وہ دونوں بھی ہلاک ہو گئے۔ جنہوں نے بیٹے کی لاش کو غسل دینا تھا، قبر میں اتارنا تھا وہ خود بھی قبر میں اتر گئے۔ ایک گھر سے تین جنازے۔ یہ تمام واقعات محض ایک ہفتے میں پیش آئے۔
ہم نابینائوں کی بستی میں رہتے ہیں جہاں دکھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہم بہرے ہوگئے ہیں درد بھری فریاد ہمیں سنائی نہیں دیتی۔ ہم گونگے ہوگئے ہیں۔ ظلم ہمارے اردگرد برپا ہے لیکن ہم گونگے پن میں پناہ ڈھونڈنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہماری یادداشت المناک حد تک کمزور ہوگئی ہے ہمیں کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ جذبات کا چند دن اظہار اور اس کے بعد سب کچھ فراموش۔ بہلا وں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے۔ نوٹس لے لیا گیا، رپورٹ طلب کرلی گئی، ذمے داروں کو معطل کردیا گیا، تفتیشی ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ قصور میں تین لا پتا بچوں کی لاشیں ملنے پر وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے ٹوئٹ میں کہا تھا قصور واقعے پر سب کا محاسبہ ہوگا۔ جنہوں نے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہیں کیا ان سے باز پرس کی جائے گی۔ یہ فرمان صادر ہوئے کتنے ہی دن بیت گئے ہیں نہ کسی قاتل کا سراغ لگایا جاسکا نہ کسی جانور کو پکڑ کے بند کیا جاسکا۔ ان بچوں کا کیا قصور تھا۔ جو گھر سے نکلے پھر زندہ گھر آنا نصیب نہیں ہوا۔ ریت کے ٹیلے میں دبے ہوئے اعضا، ٹکڑے ٹکڑے جگر۔ باپ سراپا نوحہ ہیں۔ مائوں کے قدم انتظار نے پکڑ لیے ہیں۔ وزیراعظم کو یاد بھی نہ ہوگا کہ قصور واقعے پر انہوں نے کوئی وعدہ کیا تھا۔
ہمارے حکمران غیر ذمے دار، انجام سے غافل اور ہٹ دھرم ہیں۔ ان حکمرانوں نے ہماری بستیوں پر ناداری غربت اور افلاس کے عذاب تو اتارے ہی ہیں ہمارے اندر کی انسانیت کو بھی بہت نحیف اور لاغر کردیا ہے۔ وہ بدمعاشی کے زور پر اقتدار تک پہنچتے ہیں اور کمینگی ظلم اور بدمعاشی کے بل پر اس قبضے کو برقرار رکھتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال درندگی اور شقاوت کا ایسا واقعہ تھا کہ حکمرانوں کی نیند اڑجانی چاہیے تھی۔ یہ واقعہ اس بات کی علامت تھا کہ اس ملک میں انسانیت کی شہریت منسوخ کردی گئی ہے۔ آٹھ ماہ ہونے کو آرہے ہیں کسی قاتل کی گرفتاری تو کجا تحقیق میں ادنیٰ پیش رفت بھی نہیں ہوئی۔ کیوں۔ ایک گروہ ہے جس کے بارے میں لب کشائی کی اجازت نہیں۔ رائو انوار چار سو سے زائد افراد کا قاتل کسی حکمران، کسی عدالت،کسی عزت مآب جج میں اتنی جرات ہے کہ اسے کٹہرے میں لانا تو درکنار اس کی طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔ پھر وہی سوال کہ کیوں سب اتنے بے بس ہیں۔ جواب یہ ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا لازم نہیں ہوتا۔ اپنی جان بچانا بھی فرض ہے۔ مسکین اور مظلوم ہونا اس ملک میں تہمت ہے گالی ہے جسے سننا بھی پڑے گا اور سہنا بھی پڑے گا۔
گڈگورننس کیا ہوتی ہے۔ کیسے قائم کی جاتی ہے۔ نہ کسی کی خواہش ہے نہ طلب۔ ایک خبر کے مطابق قصور میں تین سال میں 700سے زائد بچوں کے اغوا کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ یہ قتل عام ہے۔ ہمیں لوٹا جارہا ہے، زندگی حرام کردی گئی ہے اور ہم شاد ہیں کہ جمہوریت ہمارا طرز زندگی ہے۔ جمہوریت جو اپنی جنم بھومیوں میں اس وحشت کا تدارک کرنے سے قاصر ہے۔ جہاں قانون وحشتوں سے سمجھوتے کررہا ہے۔ اس حیوانیت کا علاج اسلامی تعزیری قوانین ہیں۔ اسلام سفاک مجرموں کے لیے کوئی رعایت نہیں رکھتا۔ وہ درندے جنہوں نے انسانوں کو خوف ناک عذاب میں مبتلا کررکھا ہے اسلام ان میں خوف پیدا کرتا ہے۔ یاد رہے اسلام سزائیں دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ سزائوں کا خوف پیدا کرتا ہے اتنا کہ پھر درندے انسانی بستیوں کا رخ کرنا بھول جاتے ہیں۔