پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

345

پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے ترمیمی معاہدے پرگزشتہ دنوں ہونے والے دستخطوں کے بعد ایران اب پائپ لائن تعمیر میں تاخیر پر ثالثی عدالت میں نہیں جائے گا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے ضمن میں اس پیش رفت کو پاک ایران تعلقات میں گرم جوشی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قدرتی گیس کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ایک خوشگوار تبدیلی قرار دیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ انٹرا اسٹیٹ گیس سسٹم اور نیشنل ایرانین گیس کمپنی کے درمیان طے پانے والے اس نئے معاہدے کے تحت ایران پائپ لائن تعمیر میں تاخیر پر ثالثی عدالت نہیں جائے گا اور نہ ہی پاکستان کو منصوبے کی تکمیل میں تاخیر پر ایران کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا، دونوں ممالک مل کر منصوبے کی تکمیل کے لیے قابل عمل حل نکالیں گے، ترمیمی معاہدے کے مطابق پاکستان 2024 تک پائپ لائن تعمیر کرے گا جس کے بعد پاکستان ایران سے 2049 تک 750 ملین مکعب فٹ گیس یومیہ خرید سکے گا۔ زیر بحث معاہدے کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے آئی ایس جی ایس نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی پابندیوں کی وجہ سے معاہدے پر عمل نہیں کیا، تاہم اب معاہدے کی تجدید کے بعد پاکستان ایران سے پچیس سال تک 750ملین مکعب فٹ گیس یومیہ خریدنے کا پابند ہوگا۔
یاد رہے کہ اس منصوبے پر 2008 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آصف علی زرداری نے بطور صدر پاکستان دستخط کیے تھے اور اس تاریخی گیس پائپ لائن معاہدے کے تحت پاکستان کو 2015 تک گیس کا پہلا فلو وصول کرنا تھا لیکن چونکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کی طرف بھی گیس پائپ لائن کا کام ابھی تک پوری طرح مکمل نہیں ہوا ہے اس لیے یہ منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار چلا آرہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایران پاکستان کو گیس سپلائی ساؤتھ پارس فیلڈ سے دے گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دو ممالک کے عمومی تعلقات میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر نفع اور نقصان کو بنیاد بنانے کے باوجود ایران نے گیس پائپ لائن منصوبے کے ترمیمی معاہدے پر دستخط کر کے پاکستان کے ساتھ اسلامی اخوت اور برادرانہ تعلقات کا عملی ثبوت دیا ہے۔ ایران نے اپنی جانب سے بڑی تیزی کے ساتھ پائپ لائن کا اکثر حصہ تعمیر کر دیا تھا مگر ایران پر جوہری تیاریوں کے الزام میں امریکا اور عالمی برادری کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائین تعمیر نہیں کرسکا تھا جس پر نہ صرف پاکستان کو تشویش تھی بلکہ ایران بھی اس صورتحال سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ دراصل ایران کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان کو بین الاقوامی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو مقررہ میعاد میں مکمل کرنا چاہیے لیکن چونکہ یو این چارٹر کے مطابق پاکستان پر بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری لازم ہے اور اس کے لیے اس نوعیت کے معاملات میں بین الاقوامی دبائو کے ساتھ ساتھ امریکا اور خاص کر پاکستان کے قریبی اتحادی عرب ممالک کی ناراضی مول لینا ممکن نہیں ہے اس لیے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لیے پاکستان جہاں ایران پر بین الاقوامی پابندیاں نرم ہونے کا انتظار کرتا رہا وہاں وہ اس ضمن میں سعودی اور ایرانی تعلقات میں پائے جانے والے شدید تنائو میں کمی پر بھی نظریں مرکوز کیے ہوئے تھا۔
اس امر سے ہر کوئی واقف ہے کہ گزشتہ آٹھ دس سال سے ایران کی طرف سے اس منصوبے کو مکمل کرنے کے نہ صرف بار بار تقاضے ہوتے رہے ہیں بلکہ بعض مواقع پر ایران کی جانب سے پاکستان کے حصے میں تعمیر ہونے والی پائپ لائن پر کام کی پیشکشیں بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن پاکستان بین الاقوامی مجبوریوں کی وجہ سے اس پیشکش کو شکریے کے ساتھ واپس کرتا رہا ہے، دراصل جن دنوں اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے یہ وہ دن تھے جب گیس کی قلت سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا اندرونی طور پر گیس کی قلت کے باعث خصوصاً سردیوں میں صنعتیں ٹھپ اور گھریلو ضرورتیں پوری نہیں ہورہی تھیں۔ اس پس منظر میں ایران کے ساتھ امریکا کی مخاصمت کی وجہ تو یقینا سمجھ میں آتی ہے لیکن امریکا کی امتیازی پالیسیوں اور عالمی سطح پراس کے منافقانہ کردار کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ بھارت کو تو ایران سے تیل خریدنے اور ایران میں تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے حتیٰ کہ اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل چاہ بہار بندرگاہ تعمیر کرنے کی تو کھلی اجازت حاصل رہی ہے لیکن دوسری جانب پاکستان کو دھمکی دی گئی کہ اگر اُس نے مجوزہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام کا سوچا بھی تو اسے عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل اس طرز عمل کے ذریعے امریکا ایک تیر سے دوشکار کرنا چاہتا ہے، امریکا کو بھارت ایران اقتصادی قربتوں پر شاید اس لیے زیادہ اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان سرگرمیوں سے ایران سے زیادہ بھارت کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور بھارت چونکہ ان دنوں اس سارے خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل میں پولیس مین کا کردار ادا کر رہا ہے اس لیے امریکا کو اس کے ناز نخرے برداشت کرنے کے ساتھ اس کی خاطر بین الاقوامی قوانین کو بھی ڈھٹائی کے ساتھ پس پشت ڈالنا پڑتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا حالیہ ترمیمی معاہدے کے بعد پاکستان اس منصوبے پر فوری عمل درآمدکا آغازکر سکے گا یا اب بھی پاکستان کو امریکا کی طرف سے ایران پر پابندیاں اُٹھنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر تو پاکستان کو ان پابندیوں کے اٹھنے کا انتظار کرنا ہے تو پھر تو شاید اس منصوبے پر مستقبل قریب میں بھی عمل درآمد کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں البتہ اگر پاکستان نے ان پابندیوں میں سے درمیان کا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کی تو تب پھر شاید اس بیل کے منڈھے چڑھنے کی توقع کی جاسکے گی۔