سندھ حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے اس یہ یقین ہونے لگا ہے کہ یہاں نہ کرپشن ختم ہوگی اور نہ ہی قوانین کے مطابق اداروں کو چلایا جائے گا۔ نتیجتاً نہ تو کراچی صاف ہوگا اور نہ ہی شہر کے دیگر مسائل حل ہوںگے۔ یقین یہ بھی ہے کہ کم ازکم موجودہ جمہوری دور میں صرف باتیں اور دعوے کیے جائیں گے، سندھ حکومت کو شرم آئے گی اور نہ ہی منتخب بلدیاتی قیادت شہر کو ’’کراچی‘‘ بنانے کے لیے کچھ کرے گی۔ سندھ حکومت اپنے محکموں اور اداروں کو قوانین کے تحت چلانے کے لیے سنجیدہ نہیں تو وہ بلدیہ عظمٰی سمیت کراچی کے بلدیاتی اداروں کو کیوں کر سنجیدگی سے چلائے گی۔ وزیراعلیٰ اور وزراء ان دنوں کراچی کو صاف کرنے کی 30 روزہ مہم میں مصروف ہیں۔ میڈیا کی کوریج سے تو ایسا لگتا ہے کہ شہر صاف ہوجائے گا۔ لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ میڈیا کوریج کے بعد کچرا اسی جگہ پھینکا جارہا ہے جہاں سے میڈیا کی موجودگی میں اٹھایا گیا تھا۔ جبکہ شہر کے مختلف میدانوں، رفاہی پلاٹوں اور کھلے مقامات پر کچرا پھینکا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کی مادر علمی کے سامنے گلستان جوہر بلاک ون میں بھی عارضی گاربیج اسٹیشن کا نام دے کر یہاں کچرے کا پہاڑ بنایا جارہا ہے جس سے جامعہ کراچی سمیت آس پاس کے رہائشی علاقے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اس مہم کے دوران اب تک کچرے کو لینڈ فل سائٹ تک پہنچانے کا انتظام نہیں کیا جاسکا۔ گندگی غلاظت پھیلنے کے بعد اب مچھروں، مکھیوں اور خطرناک قسم کے اڑنے والے کیڑوں کی بھی افزائش ہونے لگی جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ مگر یہ سب کچھ سرکاری قیمتی گاڑیوں میں گھومنے والے وزراء اور میئر سمیت ڈی ایم سیز کے چیئرمینوں کو شاید نظر ہی نہیں آتا۔ سندھ گورنمنٹ اپنی نااہلی کا شور مچنے کے ڈر سے میئر اور بلدیاتی قیادت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے بھی گریزاں ہے۔
سندھ حکومت صفائی میں مصروف ہے یا نہیں اس بارے میں حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ صوبائی حکومت کی نااہلی یا عدم دلچسپی کی وجہ سے ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ اتھارٹی مکمل طور پر غیر فعال ہوچکی ہے۔ کراچی میں جاری گرین لائن بس ٹرانزٹ کا منصوبہ اب مکمل طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت کراچی انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کی نگرانی میں بن رہا ہے۔ حکومت سندھ کو اس منصوبے کے تحت بسیں خرید کر چلانا تھی مگر منصوبے کے توسیعی مرحلے پر کام مکمل ہونے کے باوجود حکومت سندھ بسیں خریدنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان بسوں کی خریداری کا کام بھی صوبائی حکومت سے لے کر مزکورہ کمپنی کے سپرد کرچکے ہیں۔ صوبائی حکومت صرف وفاقی حکومت کے اس منصوبے کو مکمل کرانے میں ہی ناکام نہیں ہوئی بلکہ اپنے اورنج لائن، ریڈ لائن اور یلو لائن کے منصوبوں پر بھی اب تک عمل درآمد شروع نہیں کراسکی۔ مگر سندھ کے حکمراں اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہ کر خلاف قانون اقدامات کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ جو 5 سال قبل قائم ہوا تھا اب تک مکمل طور پر فعال بھی نہیں کیا جاسکا۔ اس کا کام پورے سندھ میں گھروں سے کچرا اٹھاکر گاربیج اسٹیشنوں تک پہنچانے اور وہاں لینڈ فل سائٹ تک پہنچانا ہی نہیں بلکہ کچرے سے ریونیو جنریٹ کرنا بھی تھا مگر تاحال یہ کراچی کا پورا کچرا بھی اٹھانے اور اسے ٹھکانے لگانے میں ناکام ہے۔
حال ہی میں سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ میں سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 20 افسران کو ایکموڈیٹ کرنے کے لیے ایک ایسی غیر قانونی کوشش کی گئی جسے نو وارد ایم ڈی آصف اکرام نے ناکام بنادیا۔ حکمرانوں کی ناجائز خواہشات یا احکامات کو مسترد کرنا آسان بات نہیں یہ صرف ایماندار اور دیانتدار افسران کا کام ہے۔ جسارت کی تحقیقاتی خبر کے مطابق چیف سیکرٹری سندھ نے حکام کے دباؤ پر مذکورہ ترقیاتی ادارے کے نان ٹیکنیکل اور غیر تجربہ کار افسران کو ایس ایس ڈبلیو ایم بی میں شمولیت کا حکم جاری کیا جسے ایم ڈی آصف اکرام نے اپنے اعتراض کے ساتھ مسترد کردیا۔ سندھ میں سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ وہ ادارہ بنا ہوا ہے جسے افسران ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس ادارے کا بجٹ 10 ارب روپے ہے۔ یہاں الاونسز کی مد میں اضافی رقم بھی غیر معمولی ملتی ہے۔ اسی وجہ سے مختلف اداروں کے لوگ یہاں اپنے تقرر کے لیے بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ آصف اکرام ان افسران میں شامل نہیں ہیں۔ انہیں تو حکومت نے ’’فٹبال بنایا ہوا ہے۔ طویل عرصے بعد جب انہیں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ایم ڈی مقرر کیا۔ واٹر بورڈ کے ایم ڈی کا چارج لینے کے دوسرے دن پہلے سے منظور شدہ چھٹیوں پر حج کے لیے روانہ ہوگئے اسی دوران ان کا تبادلہ لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کردیا گیا۔ حج سے واپسی کے بعد انہوں نے ڈی جی لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا چارج لیا تو صرف ایک ہفتے بعد ہی انہیں ایس ایس ڈبلیو ایم ڈی کا ایم ڈی بناکر بھیج دیا گیا۔ اب اس بات کا خدشہ ہے کہ انہیں یہاں سے بھی ہٹادیا جائے گا ممکن ہے کہ انہیں بلدیہ عظمیٰ کا میٹروپولیٹن کمشنر مقرر کردیا جائے جہاں ان دنوں گریڈ 21 کے ڈاکٹر سیف الرحمن تعینات ہیں۔ ڈاکٹر سیف الرحمان چونکہ کچھ زیادہ ہی ’’ایماندار، دیانتدار اور فرض شناس‘‘ ہیں اس لیے گریڈ 20 کی اسامی پر بھی خوشحال ہیں۔ تاہم اب حکومت انہیں یہاں سے فارغ کرنا چاہ رہی ہے۔ اگر میئر وسیم اختر اچانک بااختیار ہوکر ڈاکٹر سیف کا تبادلہ رکوادیں یا ان کی جگہ آصف اکرام کے تقرر کی مخالفت کردیں تو پھر کے ایم سی کی حالت نہیں بدلے گی لیکن دوسری صورت میں آصف اکرام سے یہ توقع ہے کہ وہ بلدیہ عظمیٰ کے نظام کو قانون کے مطابق چلانے کی شروعات کردیں گے۔ یقینا کے ایم سی کے ارب پتی افسران و ملازمین میں ان کی تعیناتی سے خوف پیدا ہوجائے گا گھروں پر بیٹھ کر تنخواہیں لینے والے سیکڑوں بلکہ ہزاروں ملازمین کو رزق حلال کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن یہ تب ممکن ہوگا جب حکومت بلدیہ کراچی اور اپنے اداروں کو قوانین کے مطابق چلانے پر آمادہ ہوگی۔
یہ بات میں اس لیے پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ حکومت کسی ادارے میں قوانین کی بالادستی کے بجائے لاقانونیت اور بے اصولی کو فروغ دینے میں زیادہ فعال نظر آتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بلدیاتی اداروں سمیت دیگر اداروں میں مسلسل جاری بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں پر کارروائی کرتی۔ حکومت تو ضرورت پڑنے پر کرپٹ افسران کے لیے نابینا بھی ہوجاتی ہے۔ جیسے کہ کے ایم سی کے فنانشل ایڈوائزر کی اسامی پر ریٹائرڈ افسر کو تعینات کرنے پر ہوچکی ہے۔ حکومت کا بس چلے تو کنٹریکٹ پر کام کرنے والے تمام ’’چہیتوں‘‘ کو مستقل کردے اور تمام ناہل اور کرپٹ افسران کو اہم اداروں میں پوسٹ کرکے آزاد چھوڑ دے جیسے حال ہی میں کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں میں کیا ہے۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ حکومت مبینہ طور پر بعض اہم اسامیوں پر تعیناتی کے غیر قانونی چارجز مقرر کرچکی ہے گوکہ اب سندھ اہم اسامیاں بکنے لگی ہیں۔ یقین نہ آئے تو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ و انکوائریز یا نیب سے خفیہ تحقیقات کرواکر دیکھ لیجیے۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب سیاسی اور حکومتی ایوانوں میں بولیاں لگیں گی تو بلدیاتی ایوانوں میں کیوں نہیں لگائی جائیں گی۔ سب ہی کو پتا ہے تھانے تو بہت عرصے سے بکتے آئے ہیں… حیرت ہے معصوم قوم پر جو مردہ بھٹو کو زندہ رکھ کر حکمرانوں سے مثبت کردار کی توقع رکھتی ہے۔