ایک اور دھوکا

188

ہمارے ہاں بغلیں بجائی جارہی تھیں‘ بلکہ بجائی جارہی ہیں کہ امریکہ نے کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کی ہے‘ چلیں مان لیتے ہیں‘ یہ ثالثی بھی اگر اس کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوجائیں تو کیا برا ہے‘ لیکن اصل میں ہوا کیا؟ بالکل وہی ہوا‘ گر گئے سجدے میں یہ ناداں جب وقت قیام آیا‘ امریکی صدر نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے وقت کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا اور کہا کہ ایران دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے والا نمبر ون ملک ہے ایران کو دوسرے ممالک کو دھمکیاں دینا بند کرنا ہوں گی۔ سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے نتیجے میں تہران پر پابندیاں لگائیں، جب تک ایران اپنا رویہ نہیں بدلتا یہ پابندیاں نہیں اٹھائی جائیں گی۔ اسی طرح وہ چین پر بھی برسے ہمیں خوشخبری دی گئی تھی‘ بلکہ کہا گیا کہ ایک اور ورلڈ کپ جیت لیا ہے‘ وطن واپسی پر ائرپورٹ پروزیر اعظم عمران خان کو تحریک انصاف کی جانب سے پھولوں کے ہار پہنائے گئے لیکن یہ کیا ہوا؟ گزشتہ دورہ امریکا کے دوران اور بعدازاں کئی فورموں پر صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی اور متعدد بار اس مسئلہ کے حل پر زور دیا وزیر اعظم کے رواں دورے کے موقع پر بھی ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے رہے یوں پوری دنیا کی نظریں بالعموم اور کشمیریوں و پاکستانیوں کی بالخصوص صدر ٹرمپ کے خطاب پر تھیں مگر انہیں مایوسی ہوئی وہ اپنے خطاب میں ایران اور چین پر ہی برستے رہے اور مسئلہ کشمیر پر مکمل خاموش رہے۔ ثالثی کی پیشکش کہیں کھوگئی؟
امریکا پر یقین؟ ہرگز نہیں کیا جا سکتا وہ کہتا کچھ کرتا کچھ اور ہے 1971ء میں کیا ہوا تھا‘ یہ سب یاد ہے‘ ہم نے اس کے بحری بیڑا بھجوانے کے اعلان پر اعتبار کیا جو کبھی نہ پہنچ سکا۔
وزیراعظم عمران خان نے نیویارک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جو ملاقات کی امریکی صدر نے پاک امریکا کی تجارت پر بات کی وزیراعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ افغان مسئلہ پر بات کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ ہمارے لیے بہت اہم ہے صدر ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کو ثالثی کا راگ چھیڑ دیا اور کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو ثالثی کے لیے تیار ہوں اس سے اگلے ہی روز ہیوسٹن میں بھارتی وزیراعظم مودی نے بہت جارحانہ زبان استعمال کی بلاشبہ پاکستان کو اس وقت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جسے ختم ہونا چاہیے‘ مقبوضہ کشمیر کی حالت جوں کی توں رہی تو حالات مزید خراب ہونگے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ماہ چار اگست سے جاری بھارتی فوجوں کے مظالم اور کرفیو کے تسلسل کے باعث کشمیری عوام کے بڑھتے ہوئے روٹی روزگار کے اور سماجی مسائل سے آج پوری دنیا آگاہ ہوچکی ہے۔ مودی سرکار پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھائے رکھنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور سلامتی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مکمل ادراک ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بھی بھارتی مظالم کیخلاف تسلسل کے ساتھ آواز اٹھائی جارہی ہے مگر مودی سرکار نے عالمی قیادتوں اور اداروں کے اس دبائو کے باوجود نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اپنے عزائم اور منصوبہ بندی سے رجوع نہیں کیا بلکہ پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ اور آرمی چیف بپن راوت نے اسی تناظر میں گیدڑ بھبکی لگائی ہے کہ پاکستان 65ء اور 71ء والی غلطی نہ دہرائے‘ ہم اس بار بالاکوٹ سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔ بھارت ایسی گیدڑ بھبکیاں یقینا اپنی طاقت کے زعم میں اور کھلم کھلا امریکی سرپرستی حاصل ہونے پر لگاتا ہے جس نے ایسی ہی جنونیت کے باعث کے دو ایٹمی ممالک کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کیا ہے جس کے باعث علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں بھارت نے اپنے 5‘ اگست کے اقدام کے تحت اس مسئلہ کو مزید گمبھیر بنادیا ہے محسوس یہی ہوتا ہے کہ عالمی قیادتیں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرے کا باعث بننے والے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں نہ ان کی جانب سے عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے بلکہ انہوں نے دہری پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کے تحت وہ بھارت سے تعلقات میں بھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے اور پاکستان اور کشمیری عوام کے لیے بھی رسمی طور پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ہیوسٹن کے این آر جی اسٹیڈیم میں بھارتی وزیراعظم مودی کے لیے اہتمام کردہ استقبالیہ میں مودی کی باہوں میں باہیں ڈال کر شرکت کی‘ جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور کرفیو کیخلاف کسی قسم کی بات کرنے اور ثالثی کی پیشکش دہرانے کے بجائے اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ٹرمپ کا مکمل جھکائو بھارت کی طرف نظر آرہا ہے عالمی قیادتوں کو اس سنگین ایشو پر جامع اور ٹھوس حکمت عملی طے کرنی چاہیے‘ پاکستان مزید کسی دھوکے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔