اقوام متحدہ سے توقع نہ رکھیں

213

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال ستمبر میں ہوتا ہے جس میں دُنیا بھر سے سربراہانِ مملکت و حکومت اور ان کے نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اس کی رکنیت سے باہر نہیں ہے۔ یہ گویا ایک عالمی پنچایت ہے جس میں بیٹھ کر رکن ممالک اپنے مسائل زیر بحث لاتے اور ان کے پُرامن حل کی جستجو کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں قوموں کی آزادی، انسانی حقوق اور عالمی امن و امان پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ نے ایک سلامتی کونسل تشکیل دے رکھی ہے جس کے مستقل ارکان دنیا کے پانچ بڑے ممالک امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس ہیں۔ جب کہ غیر مستقل ارکان بدلتے رہتے ہیں۔ مستقل ارکان کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں زیر بحث کسی مسئلے پر ویٹو (حق استرداد) کا اختیار بھی حاصل ہے۔ جب کوئی مستقل رکن کسی مسئلے کو ویٹو کردے تو اس پر اجلاس میں بحث نہیں ہوسکتی اور نہ ہی سلامتی کونسل اس پر کوئی کارروائی کرسکتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ان پانچ ملکوں نے عالمی ادارے کو یرغمال بنارکھا ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل عالمی امن کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھا سکتی۔ ان پانچ ملکوں میں بھی صرف امریکا کو بالادستی اور برتری حاصل ہے اس کی پشت پر یہودی ذہن کام کررہا ہے اور امریکا تنہا ایک سو چھیانوے ممالک کے عالمی ادارے کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف کتنی ہی قرار دادیں منظور کی ہیں لیکن امریکا نے کسی قرارداد پر عمل نہیں ہونے دیا۔ اس طرح اہل کشمیر کو حق خودارادی دینے کے حق میں بھی سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں، جن پر خود بھارت کے بھی دستخط ہیں لیکن ان پر بھی آج تک عملدرآمد کی نوبت نہیں آسکی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان خاص طور پر امریکا ان پر عمل نہیں کروانا چاہتے۔ البتہ جہاں امریکا اور دیگر ارکان کی مرضی ہو وہاں سلامتی کونسل فوراً حرکت میں آجاتی ہے۔ مثلاً سوڈان کے علاقے مشرقی تیمور کی عیسائی آبادی کو آزادی دلانی مقصود تھی تو سلامتی کونسل نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے فوراً ایک نیا عیسائی ملک تخلیق کردیا اور سوڈان دیکھتا رہ گیا۔ امریکا نائن الیون کی آڑ میں پہلے افغانستان پھر عراق پر حملہ کرنا چاہتا تھا، اس نے کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے ایکشن پر سلامتی کونسل سے انگوٹھا لگوالیا۔ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی مجموعی کارکردگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ عالمی ادارہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے اور پرامن اسلام کا ناتہ دہشت گردی سے جوڑنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ امریکا نے افغانستان اور عراق میں لاکھوں لوگوں کو قتل کردیا لیکن وہ دہشت گرد نہیں ہے، اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو مار رہا ہے لیکن اس پر بھی دہشت گردی کا لیبل چسپاں نہیں ہوتا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن عالمی ادارہ اسے بھی دہشت گرد کہنے کو تیار نہیں۔ البتہ مسلمان اپنے دفاع میں ہتھیار اُٹھالیں تو پوری دنیا میں ان کی دہشت گردی کا ڈھول پیٹ دیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ اور اس کی ذیلی تنظیمیں ان کی مشکیں کسنے کے لیے میدان میں آجاتی ہیں۔
ذکر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے چلا تھا جس کا اِن دنوں نیویارک میں اجلاس ہورہا ہے۔ اجلاس میں شرکت کے لیے پوری دنیا کے نمائندے وہاں پہنچے ہوئے ہیں۔ دنیا کا اہم ترین مسئلہ اس وقت کشمیر ہے جہاں بھارت آگ اور خون کا کھیل کھیل رہا ہے اس نے پورے خطے کے امن کو باورد کے ڈھیر پر بٹھا رکھا ہے لیکن ایک دو ملکوں کے سوا کسی نے اس سنگین ترین مسئلے پر لب کشائی نہیں کی۔ امریکا جو عالمی امن کا ٹھیکیدار بنا ہے، اس کا صدر بھارتی دہشت گرد نریندر مودی کو گلے لگارہا ہے اور اس کی خاطر مدارات کررہا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے بھی امریکی صدر سے ملاقات کی ہے لیکن اس ملاقات کا کوئی فالو اپ سامنے نہیں آیا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر مقبوضہ کشمیر کی دھماکا خیز صورت حال پر کوئی سنجیدہ توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اسے بھارت کی دوستی عزیز ہے اور اس دوستی میں کشمیر کو حارج نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہی حال دوسرے ملکوں کا ہے سب مل کر کشمیریوں کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہم جب یہ تحریر لکھ رہے ہیں تو ابھی وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے خطاب نہیں کیا ہے۔ وہ بلاشبہ عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ بڑی جرأت سے پیش کریں گے، وہ عالمی ضمیر کو بُری طرح جھنجھوڑیں گے لیکن اس کا نتیجہ سوائے خاموشی کے اور کچھ برآمد نہ ہوگا اور جنرل اسمبلی کا اجلاس وقت مقررہ پر نشتند، گفتند اور برخاستند کے ساتھ تحلیل ہوجائے گا۔ یہ اجلاس بزبانِ خاموشی اہل کشمیر اور خاص طور پر پاکستان کو یہ پیغام دے جائے گا کہ دنیا میں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘۔ اگر آپ کے پاس بھی لاٹھی ہے تو آپ بدمست بھینسے بھارت کو قابو کرسکتے ہیں، اسے جھکنے اور خاک چاٹنے پر مجبور کرسکتے ہیں، مذاکرات بھی اُسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں جب آپ فریق مخالف کو زیر کرچکے ہوں اور وہ آپ کی ہر بات ماننے کو تیار ہو۔ اسلام کا نظریۂ جہاد بھی یہی کہتا ہے کہ حق کے غلبے کے لیے جو طاقت بھی میسر ہے اسے آزمایا جائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی یہ راستہ اپنایا کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ اہل کشمیر کی بقا بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان ان کے تحفظ کے لیے آگے بڑھے اور آخری سپاہی اور آخری گولی کا بیانیہ سچ کر دکھائے۔