جنابِ بزدار: وسیلۂ روزگار

231

ہمارے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے شہسوار کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی صاف بتاتے ہیں کہ وہ دبائو میں ہیں، سچ بولنے اور لکھنے کی آزادی نہیں، سچ بولنے پر انہیں آف اسکرین کردیا جاتا ہے، وغیرہ، ہمیں حقیقتِ حال معلوم نہیں ہے، کیونکہ ہم غیب کی باتیں نہیں جانتے، واللہ اعلم بالصواب۔ البتہ عربی کا مقولہ ہے: ’’صَاحِبُ الْبَیْتِ اَدْریٰ بِمَا فِیہ‘‘ یعنی گھر کا مالک اپنے اندرونی معاملات کو بہتر جانتا ہے۔ تاہم ہمیں اتنا معلوم ہے کہ اگر اسلامی اَقدار پر یلغار کرنی ہے، تو میڈیا کو مکمل آزادی ہوتی ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، آف اسکرین تو دور کی بات ہے، آن اسکرین اپنی فتح کا اعلان کرتے ہیں، جیسا کہ پشاور میں طالبات کے حجاب کے مسئلے پر مناظر دیکھنے کو ملے۔ سو کن شعبوں میں پابندی ہے اور کس کس وادی میں قدم رکھنے سے پائوں جلتے ہیں، کھل کر کوئی نہیں بتاتا، محض استعارات، کنایات اور بین السطور سے کام لیا جاتا ہے۔
مذہب اور مذہبی اقدار کی طرح جس شعبے میں کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کو اپنے قلم اور طلاقتِ لسانی کے جوہر دکھانے کا کھلا موقع ملتا ہے، وہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی شخصیت ہے، جب تک ان کا عہدِ اقتدار جاری ہے، ہمارے میڈیا کے دوستوں کا روزگار بھی چلتا رہے گا، کیونکہ جب موضوعات کا قحط ہو، ماحول سائیں سائیں کرتا ہو، مختلف رہگزاریوں پر ’’داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ کا غیر مرئی بورڈ لگا ہو، ایسے میں جنابِ سردار عثمان بزدار کام آتے ہیں، وہ بے ضرر آدمی ہیں، ناراض بھی نہیں ہوتے حتیٰ کہ قدرت نے ان کا چہرہ تاثّرات سے عاری بنایا ہے اور ان کی فیس ریڈنگ یعنی ’’رُو خوانی‘‘ بھی آسان نہیں ہے، فارسی کا مقولہ ہے: ’’گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است‘‘۔ اس کے علاوہ رویتِ ہلال جیسے موضوعات تو فقط ایک پروگرام کی غذا ہوتی ہے، اس کے بعد پھر موضوعات کا قحط اور فاقوں پہ فاقے۔
جنابِ عثمان بزدار کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ایک ماہر قلم کار کی خدمات مستعار لیں اور ان کی شان میں جو کچھ لکھا اور بولا جارہا ہے، اس سارے مواد کو جمع کریں، ان کے دورانیے کے اختتام پر ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے گی، اسے اہتمام سے شائع کریں اور اس کا عنوان رکھیں: ’’بزدار: وسیلۂ روزگار‘‘۔ اس کتاب کا پیش لفظ سہیل وڑائچ کی استعاراتی زبان میں ’’بکروال‘‘ کے عنوان سے اور جاوید چودھری سے افسانوی انداز میں لکھوایا جاسکتا ہے، کتاب شاہکار ہوگی اور ہاتھوں ہاتھ بکے گی، اس میں جنابِ عثمان بزدار اپنی یادداشتوں اور تجربات کا تڑکہ بھی لگا سکتے ہیں۔ جنابِ بزدار علامہ اقبال کے ایک شعر میں معنوی تصرف کرکے اور عمران خان کو دل ہی دل میں مخاطَب کر کے اپنے بارے میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں:
تونے غضب کیا مجھ کو بھی فاش کردیا
میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں
ہمارے ایک دوست علامہ محمد اعظم سعیدی خاکہ نگاری اور نقد ونظر میں مہارتِ تامّہ اور یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں، برسوں سے اُن سے ملاقات نہیں ہوئی اور ان کا رابطہ نمبر بھی میرے پاس نہیں ہے، وہ کبھی سرائیکی تحریک میں بھی متحرک رہے ہیں، پتھر کو ہیرا اور ہیرے کو پتھر ثابت کرنا اُن کے بائیں ہاتھ کا کام ہے، اُن کا حافظہ غضب کا ہے، سب کے انساب بھی انہیں ازبر رہتے ہیں، پاتال کی تہ سے بھی جوہر کشید کر کے لے آتے ہیں، وہ اس تحریر کو اشتہار سمجھیں اور سردار عثمان بزدار سے رابطہ کریں، اُن کی بہت ضرورت ہے۔ وہ بزدار صاحب کا ایسا خاکہ مرتّب کریں گے کہ اپنی مثال آپ ہوگا، اگرچہ وہ اب ہماری طرح کراچی وال ہیں، لیکن ان کا آبائی تعلق سرائیکی علاقے سے ہے۔
عمران خان اس منصب تک پہنچے ہیں تو ان کی ذہانت تسلیم کرلینی چاہیے، پنجاب سیاسی طاقت کا مرکز ہے، ارتکازِ اقتدار انسان کی فطرت ہے اور مرکزِ اقتدار کو اپنے ذاتی تصرف میں رکھنا صاحبِ اقتدار کی ضرورت ہے، سو اس مقصد کے حوالے سے عثمان بزدار بہترین انتخاب ہیں۔ عمران خان صوبۂ خیبرپختون خوا کے پچھلے دورانیے میں پرویز خٹک کا تجربہ کرچکے ہیں، وہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھے، منصب کے آئینی وانتظامی اختیارات کو بھی خوب جانتے تھے، سیاسی جوڑ توڑ کے بھی ماہر تھے، اکثریت نہ رکھنے کے باوجود انہوں نے اپنے اقتدار کے تسلسل کو جاری رکھا اور اپوزیشن کے ساتھ بھی ایک مستور اور غیر عَلانیہ مفاہمت قائم رکھی۔ پس عمران خان کو اپنے زیرِ نگیں کسی صوبے میں ایسا مردِ باکمال نہیں چاہیے تھا، اس لیے انہوں نے خیبر پختون خوا کے لیے بھی محمود خان کا انتخاب کیا۔ عمران خان کو جَنبے کی سیاست اور گروپنگ کرنے والا وزیرِ اعلیٰ نہیں چاہیے تھا۔ ایسا وزیرِ اعلیٰ جو اپنے قدموں پہ نہ کھڑا ہو، اتحادیوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پرویز الٰہی بھی عثمان بزدار کے پشت پناہ ہیں اور عَلانیہ ان کی حمایت کرتے ہیں، کیونکہ ان کے ضروری کام بھی نکل آتے ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی عیّار، تجربہ کار، اختیار واقتدار کی سائنس جاننے والا وزیرِ اعلیٰ آگیا تو اتحادیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، سو اتحادیوں کی بابت بھی یہی کہا جاسکتا ہے: ’’دیوانہ بکارِ خویش ہوشیار‘‘، جبکہ چودھری پرویز الٰہی دیوانہ نہیں، بلکہ فرزانہ ہیں۔ کبھی کبھی عثمان بزدار اختیارات کی جھلک بھی دکھاتے ہیں، وہ انگریزی کے اس مقولے کا مظہر ہوتی ہے:
’’I am Master of this house and I am saying this with the permission of my wife‘‘
سو جنابِ خان نے جنابِ بزدار کو اتنا اختیار تو ضرور دیا ہوگا۔ ایسے ہی ہمارے ایک وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی تھے، جب وہ خوبیٔ قسمت اور تقدیرِ الٰہی سے وزیر اعظم بن گئے اور پھر ان ہائوس ’’پاکستان مسلم لیگ‘‘ بناکر اس کے صدر بھی بن گئے، تو ارکانِ اسمبلی نے اُن سے کہا: ’’ہماری طرح آپ بھی ایک سیٹ پر جیت کر آئے، پھر آپ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر وزیرِ اعظم بن گئے، اب آپ مختارِ کُل اور ہم سراسر بے اختیار ٹھیرے، یہ کیسا انصاف اور کہاں کا انصاف ہے!‘‘۔ محمد خان جونیجو بظاہر سیدھے اور سادہ نظر آتے تھے، لیکن ذہین انسان تھے، انہوں نے آئینی اور قانونی موشگافیوں کا سہارا نہیں لیا، بلکہ پارلیمنٹ کے ارکان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے لیے ڈویلپمنٹ بجٹ کے نام سے کوٹہ مقرر کیا، جو اُن کی صوابدید پر اور اُن کی نگرانی میں اسکیموں پر خرچ ہوتا تھا، نیز ایک طرح سے انہوں نے صوبائی اسمبلی کے ارکان کو اپنے اپنے حلقے کے لیے بالفعل یعنی ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ بنادیا تھا، ان کے علاقے میں مختلف محکموں کے سرکاری ملازمین کا تقرر، تبادلہ اور معزولی ان کی مرضی سے ہوتی تھی۔ پس ارکانِ پارلیمنٹ واسمبلی جتنے محمد خان جونیجو کے دور میں شاداں وفرحاں رہے، ایسی شان انہیں کسی اور دور میں نصیب نہ ہوئی، اگرچہ کسی حد تک جنرل پرویز مشرف اور یوسف رضا گیلانی کے دور میں بھی یہ روایت جاری رہی، لیکن جولوگ پارٹی ٹکٹ پر جیت کر آتے ہیں، پارٹی قیادت کو یہ زعم ہوتا ہے کہ وہ اُن کی مقبولیت اور حمایت کے سبب جیتے ہیں، اگرچہ وہ بھی قابلِ انتخاب کے محتاج ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ روایت آئیڈیل نظامِ حکومت یا سائنس آف گورننس یا نظامِ آئین وقانون سے مطابقت نہیں رکھتی تھی، لیکن جب ایک بار ایک روش معمول بن جائے، تو اس سے چھٹکارا مشکل ہوتا ہے، چنانچہ عمران خان نے بارہا اسے یکسر ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن اب وہ بھی دبائو میں ہیں، اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارکانِ پارلیمنٹ کے حلقہ ہائے انتخاب کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کر چکے ہیں یا ایسا سوچ رہے ہیں، فرق فقط اتنا ہے کہ وہ ان نوازشات کو اپنی جماعت پی ٹی آئی اور اتحادیوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اور اپوزیشن کو محروم رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ ماضی میں ارکانِ پارلیمنٹ واسمبلی کے ترقیاتی فنڈحزبِ اقتدار واختلاف کے لیے کسی تمیز کے بغیر تھے۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس طرح حکومتی ارکان اور ان کے اتحادی اپنے اپنے حلقوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں، اسی طرح اپوزیشن کے ارکان بھی اپنے اپنے حلقوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں اور ان حلقوں کے عوام کا بھی سرکاری وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا حکمراں جماعت کے ارکان کے حلقوں کے عوام کا ہے۔ وزیرِ اعظم کی حزبِ اختلاف کے ارکان سے نفرت قابلِ فہم، مگر اس نفرت کی زد اُن کے حلقے کے عوام پر نہیں پڑنی چاہیے، انصاف اچھی چیز ہے، آپ کو دوبارہ ان حلقوں میں بھی ووٹ مانگنے کے لیے جانا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجائو اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی بے انصافی پر ہرگز نہ ابھارے، انصاف کرو، انصاف خدا خوفی کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، اللہ تمہارے ہر کام سے باخبر ہے، (المائدہ: 8)‘‘۔ عبداللہ بن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مومن کو حکم فرمایا ہے کہ حق بات کہو، خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے باپ دادا کے خلاف ہو یا تمہاری اولاد کے خلاف ہو اور (انصاف کرنے میں) نہ دولت مندی کے سبب مالدار سے محبت کرو اور نہ محتاجی کے سبب مسکین پر رحم کرو، (تفسیر طبری)‘‘۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو، خواہ یہ گواہی خود تمہارے خلاف یا والدین اور قریبی رشتے داروں کے خلاف ہو، جس کے بارے میں گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر، بہر حال اللہ ان کا تم سے زیادہ خیر خواہ ہے، تم خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے انحراف نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا اعراض کیا تو بے شک اللہ تمہارے سب کاموں کی خبر رکھنے والا ہے، (النساء: 135)‘‘۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’سات قسم کے اشخاص ایسے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن ان پر اپنی رحمت کا سایا فرمائے گا، جبکہ اس کے سایۂ رحمت کے سوا کوئی جائے پناہ نہ ہوگی، (اُن میں سے سب سے پہلا طبقہ) عادل حکمران ہیں، (بخاری)‘‘۔
عدل اور شہادت لازم وملزوم ہیں، کیونکہ حقدار کے حق میں عادلانہ فیصلہ کرنے کا مدار سچی شہادت پر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور گواہی کو نہ چھپائو، پس جو اسے چھپائے گا تو اس کا دل گناہگار ہے، (البقرہ: 283)‘‘۔
رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چار اشخاص پر غضب فرمائے گا: جھوٹی قسمیں کھا کر سودا بیچنے والا، متکبر فقیر، بوڑھا زانی اور ظالم حکمران، (سنن نسائی)‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ظالم عن قریب جان لیں گے کہ (انجامِ کار) کس کروٹ پلٹتے ہیں، (الشعراء: 227)‘‘۔