اسلام اور دین و دنیا کی یکجائی

525

دنیا کی سب سے اہم چیز مال ہی ہے اور رسول اکرمؐ نے فرمادیا ہے کہ مال امت کا فتنہ ہے۔ اسلام کی ان تعلیمات کا مفہوم عیاں ہے۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو ’’بقدرِ ضرورت‘‘ حاصل کریں۔ مگر بدقسمتی سے مغرب نے ہم پر جو ماڈل مسلط کیا ہوا ہے اس میں دنیا ’’بقدر ضرورت‘‘ نہیں ’’بقدر تعیش‘‘ کمائی جارہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے تصور زندگی میں دنیا ہی ہر چیز کا مرکز و محور ہے اس لیے کہ مغرب کے پاس ’’معاد‘‘ یا آخرت کا تصور موجود ہی نہیں۔ ان حقائق سے یہ حقیقت بھی ازخود عیاں ہوجاتی ہے کہ ایک مسلم معاشرے یا اسلامی ریاست میں دینی علوم کو دنیاوی علوم پر کتنی فضیلت حاصل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں دینی علوم اور دنیاوی علوم کی کوئی تفریق ہی نہیں۔ اصولی اعتبار سے یہ بات درست ہے مگر اسلام میں علم کی درجہ بندی کا تصور موجود ہے۔ اس تصور کے مطابق خدا کی ذات و صفات اور خدا کے احکامات کے علم سے بڑے علم کا تصور محال ہے۔ دوسرے علوم کا درجہ مذکورہ علم کے بعد ہے۔ یہاں ہمیں علم اور علوم کے سلسلے میں مولانا روم اور اقبال سے رجوع کرنا چاہیے۔ مولانا روم نے فرمایا ہے۔
علم را بر دل زنی یارے بود
علم را بر تن زنی مارے بور
مولانا فرما رہے ہیں کہ اگر تو علم کو روحانی ترقی کے لیے استعمال کرے گا تو وہ تیسرا درست بن جائے گا لیکن اگر تو علم کا اثر جسم پر لے گا یا اس سے مادی دنیا کمانے کی کوشش کرے گا تو تجھے سانپ بن کر ڈس لے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری جدید مغربی تہذیب کو علم نے سانپ بن کر ڈس لیا ہے۔ اقبال کے اس شعر کا ایک مفہوم یہی ہے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
یہاں اقبال کا ایک اور شعر یاد آیا
محسوس پر بِنا ہے علوم جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش
اقبال کہہ رہے ہیں تمام جدید مغربی علوم حواس خمسہ سے مہیا ہونے والی ملاقات پر کھڑے ہوئے ہیں اور جو ان علوم کو تنقید کے بغیر قبول کرے گا وہ عقاید سے محروم ہوجائے گا۔ اس لیے کہ جدید علوم اس کے عقاید کو پاش پاش کردیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے دانش ور اور جرنیل کیا ہمارے علما تک اپنے بچوں کو یہ علوم پڑھانے پر فخر کررہے ہیں۔ مغرب کے پجاری سمجھتے ہیں کہ مغرب کی فکر اس کے علوم و فنون حقائق سے پردہ اٹھانے والے اور انسان کو صاحب نظر بنانے والے ہیں مگر اقبال فرماتے ہیں۔
دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرستی و بت فروش و بت گر است
اقبال کہہ رہے ہیں جدید مغربی فکر انسان کی آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹاتے نہیں پردے ڈالتی ہے بلکہ وہ انسان اور حقیقت کے درمیان حائل ہونے والا سب سے بڑا حجاب ہے۔ یہ فکر بت بناتی ہے، بت فروخت کرتی ہے اور بتوں کو پوجتی ہے۔
جنرل باجوہ نے دینی مدارس کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ایک اہم بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ جب مدارس کے طلبہ دنیاوی علوم حاصل کرنے کے بعد اے سی ڈی سی لگیں گے تو ملک میں انصاف قائم ہوگا اور صحیح معنوں میں ریاست مدینہ قائم ہوگی۔ اگر صرف دنیا دار ہی عہدیدار بنتے رہے تو کام نہیں چلے گا۔ جنرل باجوہ کے اس تبصرے سے صرف ظاہر ہے کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کردار کی خوبیاں صرف دینی تعلیم و تربیت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں جنرل باجوہ کو چاہیے کہ جس طرح انہوں نے دینی مدارس کے نصاب میں جدید علوم شامل کرائے ہیں اسی طرح وہ جدید تعلیم کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم کو شامل کرنے کا حکم دیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جدید تعلیم کے اداروں میں صرف اسلامیات کے مضمون کے ذریعے طلبہ و طالبات کو ’’مسلمان‘‘ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن صرف ایک مضمون سے دینی شعور کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ چناں چہ اسکول سے جامعہ تک قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور فقہ کے بنیادی تصورات کو شامل نصاب کردیا جانا چاہیے۔ قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم ویسے تو تمام طلبہ کے لیے ضروری ہے مگر فوجی اداروں کے طلبہ کے لیے تو یہ تعلیم بہت ہی ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج ملک کا سب سے طاقت ور ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ہماری سیاست، معیشت، خارجہ اور داخلہ پالیسی یہاں تک کہ ذرائع ابلاغ پر بھی اثر انداز ہے۔ چناں چہ اس ادارے کے لوگوں کے مذہبی شعور کو تو بہت ہی راسخ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے اعلیٰ فوجی اہلکاروں کی اکثریت سیکولر اور لبرل نظر آتی ہے۔ جنرل ایوب سیکولر تھے، جنرل یحییٰ بھی مذہب سے بہت دور تھے۔ جنرل پرویز تو علانیہ لبرل یا روشن خیال تھے۔ ان جرنیلوں نے پاکستان کے مذہبی تشخص کو تباہ و برباد کردیا۔ جنرل ضیا مذہبی تھے مگر انہوں نے مذہب کو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے زیادہ اور خدد معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت کم استعمال کیا۔ چناں چہ فوج کے تمام اعلیٰ اہلکاروں کا مذہبی تعلیم سے آراستہ ہونا پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جنرل باجوہ نے جس طرح مدارس کے نصاب میں جدید علوم شامل کرائے ہیں اسی طرح وہ تمام سول اور فوجی اداروں میں دینی علوم کی تعلیم کا اہتمام کریں گے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست بھی نااہل، بدعنوان اور اخلاق باختہ سیاست دانوں سے بھری ہوئی ہے۔ چناں چہ اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ سیاست میں بھی صرف وہی لوگ حصہ لے سکیں جو دینی علوم کا شعور رکھتے ہیں۔ ہماری سیاست مذہبی شعور کی حامل ہوگئی تو پھر ملک و قوم کو نواز شریفوں، زرداریوں، الطاف حسینوں اور عمران خانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارے کمروں میں ایک چیز بھی ایسی نہیں جو مسلمانوں نے ایجاد کی ہو تو یہ سلسلہ تاریخ میں چلتا رہتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پورے مغرب کے پاس ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی جو اسے مسلمانوں سے نہ ملی ہو۔ مسلمانوں کا مذہب زندہ ہے۔ چناں چہ آج نہیں تو کل مسلمان پھر ایجاد و اختراع کی طرف مائل ہوں گے۔ بلکہ اگر گزشتہ 72 سال میں ان پر جابر اور نااہل بادشاہوں، جرنیلوں اور سیاست دانوں کی حکومت نہ رہی ہوتی تو مسلمان ایجاد و اختراع میں بھی بہت آگے ہوسکتے تھے۔ اگر چین صرف اچھی قیادت کی وجہ سے 40 سال میں مغرب کے منہ کو آسکتا ہے تو مسلمان 72 سال میں مغرب کے لیے چیلنج کیوں نہیں بن سکتے تھے۔