اگر مقابلہ ہو تقریری تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کی تقریر ایک طویل عرصے تک کانوں میں گونجتی رہے گی لیکن اگر تقریر کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائے تو ہر لفظ کے آئینے میں جو چہرے بھی ہمیں مسلسل نظر آتے رہے ان میں سب سے نمایاں چہرہ بہر صورت پاکستان کا اپنا ہی نظر آتا رہا۔ سوشل میڈیا پر جس تقریر کی پْر کاریوں کا بہت غوغا ہے وہ عمران خان کے دور حکومت کی مسلسل ناکامیوں کا شاخسانہ ہے۔ جب بھی کوئی لیڈر پاکستان میں مسلسل ناکامیوں کا شکار ہونے لگتا ہے تو وہ ’’اللہ کی رسی‘‘ کو مضبوطی سے تھامے رکھو کا شور مچانے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسا نسخہ کیمیا ہے جو ہر تحریک کے بجھتے شعلوں کے لیے ہوا کا کام کرتا ہے اور تحریکوں کی سرد ہوتی چنگاریاں پھر سے شعلہ بننا شروع ہوجاتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ جب اللہ کے دین کے دیوانوں کے دل و دماغ میں یہی چنگاریاں شعلوں کی طرح رقصاں ہوکر ان کو میدان کارزار میں کھینچ لاتی ہیں اور وہ مثل پروانہ شمع رسالت کے گرد جل جل کر اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کے جذبے سرد کر دیے جاتے ہیں اور منزل مقصود کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے بجائے ابلیس و بوجہل کی مکروہ بد کاریوں سے آباد کردیا جاتا ہے۔
اسلام آباد کے 126 دنوں کے دھرنے میں جن سارے فسانوں میں اسلام جیسی (نعوذ باللہ) فضول باتوں اور مدینہ جیسی پاکیزہ ریاست کا کوئی ذکر تک نہ کیا گیا تھا، تخت حکومت پر بیٹھتے ہی مکہ و مدینہ کی تسبیح شروع کردی گئی۔ ہر حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے یہ بات خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ یہی ایک ایسا نسخہ کیمیا ہے جو اقتدار کو تندرست و توانا رکھنے کے لیے اکسیر ثابت ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’’دنیا بھارت یا انصاف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، انسانیت کے بجائے تجارت کو فوقیت دینا افسوسناک ہے‘‘۔ وزیر اعظم صاحب، دنیا کا انسانیت کے بجائے تجارت کو فوقیت دینا لاکھ افسوسناک سہی لیکن ’’کرتار پور راہداری‘‘ کو کھولنے اور اس پر کام جاری رکھنے کا جواب اور پاکستان سے افغانستان تک بھارت کو زمینی راستوں سے مال لانے اور لیجانے اور پاکستان کی فضائی حدود کی مسلسل بحالی کا جواب کون دے گا؟۔ ایک اور مقام پر اسی تقریر میں یہ بھی فرمایا جارہا ہے کہ ’’جوکچھ کشمیر میں ہورہا ہے اگر میرے ساتھ ہوتا تو میں بھی بندوق اٹھالیتا‘‘۔ وزیر اعظم کی یہ بات ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دنیا کا کوئی ایک ذی ہوش و عقل انکار نہیں کر سکتا، لیکن کیا ’’گڑ کھانے‘‘ سے روکنے سے پہلے گڑ چھوڑنا ضروری نہیں ہوتا؟۔ کیا پاکستان کے بہت سارے علاقے، قبائل اور مختلف سیاسی و جہادی افراد کے خلاف ہماری یک طرفہ کارروائیاں اور مخالفین کا مدعا سنے بغیر ان کے خلاف اٹھائے جانے والے یک طرفہ اقدامات کسی فہرست میں نہیں آتے؟۔ پاکستان کی ساری ذمے دار جماعتیں، بشمول آپ کی اپنی جماعت، اس بات کی سخت مخالف تھیں کہ پاکستان میں موجود جہادی گروپوں سے سختی سے نمٹنے کے بجائے بات چیت کے ذریعے کوئی مناسب راستہ اختیار کیا جائے لیکن اس وقت اقتدار پر موجود عاقبت نااندیش حکمرانوں نے یک طرفہ شدید رویہ اختیار کرکے کچھ گروہوں کو مجبور کیا کہ وہ بھی ہر قسم کی انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر جو بھی پْر تشدد راہ اختیار کرسکتے ہیں کریں۔ یہی وہ غلط فیصلے تھے جن کا تسلسل آج تک جاری ہے۔ جس طرح آپ جیسا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ جن حالات سے کشمیری گزر رہے ہیں، میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا تو میں بندوق اٹھا لیتا، اسی طرح پاکستان کی مقتدر طاقتوں کے سخت رویوں کی سزا آج تک ہم بھگت رہے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس سلسلے میں کوئی معذرت خواہانہ انداز فکر اختیار نہیں کیا جاتا۔ اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نے فرمایا کہ ’’عالمی برادری نے مداخلت نہ کی تو 2 ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں گی‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی اقوام متحدہ نے پوری دنیا میں مسلمانوں کے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف کوئی قدم اٹھایا؟۔ چین کے ایغور، برما کے روہنگیا اور فلسطین کے فلسطینی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم اقوام عالم کی نظر میں نہیں؟۔ بات یہی ہے کہ جب تک ہم از خود اپنے (مسلمانوں) اوپر ہونے والے کسی بھی ظلم کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے دنیا کو کیا غرض پڑی ہے کہ وہ ہماری جنگ میں کودے۔ جس کشمیر کو ہم 72 برسوں سے اپنی شہ رگ کہتے رہے ہیں۔ جب اپنی ہی شہ رگ پر حملہ آور بھارت کے خلاف ہم کوئی کارروائی کرنے سے گریز کر رہے ہیں تو دنیا کو کیا پڑی وہ کان پڑی آواز سنے۔
وزیر اعظم صاحب آپ نے یورپ کی خواتین کو جو حجاب لینا چاہتی ہیں ان کی زندگی کی مشکلات کا ذکر کیا لیکن خود پاکستان کے ایک صوبے میں تعلیمی اداروں میں حجاب لازمی قرار دینے کے نوٹیفکیشن کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر واپس لے لیا جبکہ یہ وہ صوبہ ہے جس میں آپ کی اپنی پارٹی کی حکومت ہے۔ آپ وہاں ناموس رسالت پر بہت اچھا بولے لیکن غیر ملکی دباؤ کے تحت آپ نے ’’آسیہ‘‘ ملعونہ کو ان کے حوالے کردیا۔ جب آپ کے اپنے رویوں کا یہ عالم ہو تو آپ اقوام عالم سے کیا منوا سکتے ہیں؟۔ آپ نے منی لانڈرنگ کا ذکر کیا۔ یہ ہوتی کہاں ہے؟۔ آپ نے یورپ اور امریکا کے بینکوں کو مورد الزام ٹھیرایا، پیسہ جاتا کہاں سے ہے؟۔ پھر یہ کہ کیا پیسہ یورپ اور امریکا ہی جاتا ہے؟۔ یہ مشرقی وسطیٰ، آسٹریلیا، بھارت اور چین نہیں جاتا؟۔ غور طلب بات یہ ہے یہ پیسہ جہاں بھی جاتا ہے آپ کے اپنے ملک سے جاتا ہے۔ پیسہ بھی آپ کا، مجرم بھی آپ کے اپنے ملک کے اور جرم بھی آپ کے اپنے ملک میں ہو رہا ہو لیکن نہ آپ راہیں مسدود کر سکتے ہوں، نہ مجرموں کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ ہی قانون سازی کر سکتے ہوں اور دنیا سے کہیں کہ وہ دولت کیوں وصول کر رہی ہے، کیا ایسی سوچ مضحکہ خیز نہیں؟۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسی ایک نام پر لاکھوں افراد نے قربانیاں دیں لیکن پاکستان بنتے ہی ہم سب قربانیاں دینے کا مقصد اسی طرح بھول گئے جیسے سارے بد بخت سیلاب، طوفان، زلزلہ، آندھی یا اللہ کے عذاب کے بعد اس ایک اللہ کو بھول کر اپنے اپنے خود ساختہ خداؤں کے سامنے سربسجود ہوجایا کرتے ہیں۔ جب بھی پاکستانیوں پر، خواہ وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہوں، برا وقت آتا ہے تو وہ ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا ورد شروع کردیتے ہیں۔ کشمیر تا کراچی، امیر تا فقیر اور کمزور تا مقتدرہ، ہر کوئی لا الٰہ الااللہ کی گردان کرتا نظر آرہا ہو تا ہے۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کا پْرزور خطاب بے شک کسی مرد مومن کے خطاب سے کم نہیں۔ وہ فرماتے ہیں ’’فرض کریں کہ ایک ملک اپنے پڑوسی سے 7گنا چھوٹا ہے، اسے 2 آپشنز دیے جاتے ہیں، یا تو وہ سرنڈر کردے یا پھر اپنی آزادی کے لیے آخری سانس تک لڑے، ایسے میں ہم کیا کریں گے؟ میں خود سے یہ سوال پوچھتا ہوں، اور میرا یقین ہے کہ لاالہ الااللہ‘ ہم لڑیں گے‘‘۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ حال تالیوں سے گونج اٹھا۔ تالیوں کی یہ گونج ثابت کرتی ہے کہ لوگ اسلام سے کس درجہ قریب ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ 72 برسوں سے ہم اسلام کی جانب ایک انچ بھی بڑھے ہیں؟۔ بے شک عمران خان گزشتہ 72 برسوں کے تنہا ذمے دار نہیں لیکن کیا وہ اسلام کے سلسلے میں اپنے ایک سال کا جواب دے سکیں گے؟۔ کیا ایک سال میں کسی چور کے ہاتھ کاٹے گئے۔ کسی زانی کو سنگسار کیا گیا، کیا شرابی کو 80 کوڑے لگائے گئے، کیا طوائف خانے بند ہوئے، کیا منشیات فروخت کرنے والوں کے گلے کٹے یا اسلامی قوائد و ضوابط کے مطابق قانون سازی کی گئی؟۔ یہ سارے سوالات مسلسل جوابات کی منتظر ہیں اگر ان پر کوئی بھی پیش رفت کے بجائے ’’چین‘‘ کے قوانین کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے تو پھر ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کے بجائے ’’چن چوں چاں‘‘ کرتے ہوئے کیوں ڈر لگتا ہے۔ سیدھی سی بات یہی ہے کہ سیدھا ہوجایا جائے۔ اگر ان حالات میں بھی ہم سیدھے نہیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے ہماری کوئی رشتے داریاں نہیں۔ ایک بھونگے سے لیکر ’’احسن تقویم‘‘ تک سب اس کی مخلوق ہیں اور جو اس کے راستے پر چلے گا انعامات اسی کے لیے ہیں۔ دوسروں کو آئینہ مت دکھائیں اور نہ ہی آئینوں میں دھبے تلاش کریں۔ اپنا چہرہ نہ صرف دیکھیں بلکہ اسے ہر عیب سے صاف کریں، اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔