قبائلی اضلاع، بندوبست اراضی

228

 صوبائی بورڈ آف ریونیو اینڈ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے قبائلی اضلاع کو بورڈ آف ریونیو کے دائرہ اختیار میں شامل کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، تحصیل دار اور نائب تحصیل داروں کو اضافی اختیارات دے دیے ہیں۔ سول انتظامیہ کو قبائلی اضلاع میں علاقائی حدود کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی افراد، قبیلوں اور گروپوں کے مابین اراضی تنازعات کے مقدمات حل کرنے کی ذمے داری بھی سونپی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اس سال کے شروع میں صوبائی کابینہ نے قبائلی اضلاع باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کو لینڈ ریونیو ایکٹ 1967 کے تحت کرنے کے علاوہ قبائلی اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کو کلکٹر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو ایڈیشنل کلکٹر، اسسٹنٹ کمشنر اور تحصیل دار کو گریڈون کے اسسٹنٹ کلکٹر جبکہ نائب تحصیل داروں کو گریڈ 2کے اسسٹنٹ کلکٹرکے اضافی اختیارات تفویض کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔ خیبر پختون خوا حکومت کی جانب سے مذکورہ افسران کو اپنے اپنے اضلاع اور تحصیلوں میں مقامی افراد، قبیلوں اور گروپوں کے درمیان زمینی تنازعات، علاقائی حدود کا تعین اور معاملات کے مقدمات حل کرنے کی ذمے داریاں سونپی گئی ہیں۔ قبائلی اضلاع میں اراضی تنازعات کے حل کے لیے ملاکنڈ ڈویژن کی طرز پر بورڈ آف ریونیو اینڈ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے تعین کردہ قوانین لاگو ہوں گے جبکہ ان اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز یا اسسٹنٹ ڈائریکٹرز لوکل گورنمنٹ کو پی اینڈ ڈی گائیڈ لائنز کے مطابق اپنے اضلاع میں بجٹ خرچ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب محکمہ بلدیات نے قبائلی اضلاع میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے قیام کے لیے محکمہ خزانہ کو مراسلہ ارسال کرنے کے علاوہ حکومت
نے قبائلی اضلاع میں تعینات سول انتظامیہ کو اپنے اضلاع میں بجٹ استعمال کرنے کا اختیار بھی دے دیا ہے۔ واضح رہے کہ قبائلی علاقوں میں 25تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے قیام پر ایک ارب 19کروڑ روپے خرچ ہوں گے اور ان ٹی ایم ایز میں 795ملازمین بھرتی کیے جائیں گے۔ خیبر پختون خوا حکومت کی جانب سے محکمہ بلدیات کو 6ماہ کے اندر قبائلی علاقوں کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنوں فعال کرنے کے احکامات کی روشنی میں لوکل کونسل بورڈ خیبر پختون خوا نے قبائلی علاقوں کی 25ٹی ایم ایز کو تین کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہوئے منصوبہ تیار کر لیا ہے جس کے تحت مالی طور پر سب سے کمزور علاقوں کو کیٹگری ڈی میں شامل کیا گیا ہے تمام ٹی ایم ایز کے قیام اور ایک سال کے اخراجات کی مد میں محکمہ بلدیات نے صوبائی حکومت سے ایک ارب 19کروڑ 59لاکھ 91ہزار روپے طلب کر لیے ہیں منصوبے کے تحت کیٹگری ڈی میں شامل ٹی ایم ایز کے قیام پر
73کروڑ 62لاکھ روپے سے زائد خرچ کیے جائیں گے کیٹگری ڈی ٹی ایم اے میں 17گریڈ کے ٹی ایم او سمیت ایک تحصیل آفیسر ریونیو، فنانس، انفرا اسٹرکچر اور ایک سب انجینئر پرونشل یونیفائیڈ گروپ آف فنکشنریز (پی یو جی ایف) کا ہو گا جبکہ 22ملازمین نان پی یو جی ایف ہوں گے کیٹگری ڈی ٹی ایم اے میں کل 27ملازمین ہوں گے اور 16کیٹگری ڈی ٹی ایم ایز کے لیے 432افراد بھرتی کیے جائیں گے۔ اسی طرح کیٹگری سی ٹی ایم اے میں 17گریڈ کے ٹی ایم او سمیت 8افسران پی یو جی ایف جبکہ 27ملازمین نان پی یو جی ایف ہوں گے 3کیٹگری سی ٹی ایم ایز کے لیے 105افراد بھرتی کرنے کی سفارش کی گئی ہے کیٹگری سی کی تین ٹی ایم ایز پر 14کروڑ 42لاکھ 19ہزار روپے خرچ ہوں گے اسی طرح کیٹگری بی ٹی ایم اے میں گریڈ 18کے ٹی ایم او سمیت 13افسران پی یو جی ایف جبکہ 30ملازمین نان پی یو جی ایف ہوں گے مجموعی طور پر 6کیٹگری بی ٹی ایم ایز میں 258ملازمین بھرتی کیے جائیں گے کیٹگری بی کے ٹی ایم ایز کے لیے تخمینہ لاگت 31کروڑ 55لاکھ 64ہزار روپے ہے۔ قبائلی علاقوں کے تمام ٹی ایم ایز میں مجموعی طور پر 795ملازمین بھرتی کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن میں 182پی یو جی ایف اور 613ملازمین نان پی یو جی ایف ہوں گے۔ لوکل کونسل بورڈ کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ملازمین کی تعداد میں ضرورت پڑنے پر اضافہ بھی کیا جا سکے گا کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کی تعداد بڑھنے پر ڈرائیوروں، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی تعداد بڑھنے پر بھی عملہ بڑھایا جائے گا جبکہ صاف پانی کی فراہمی سے متعلق بھی ٹی ایم اے اپنی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید اسٹاف بھرتی کرسکے گا۔
متذکرہ دونوں فیصلے جہاں قبائل کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں وہاں ان دونوں فیصلوں کا مقصد قبائلی علاقوں کی مخصوص حیثیت ختم کرتے ہوئے ان کا بندوبستی علاقوں میں انضمام کے عمل کو اس کی روح کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ واضح رہے کہ جب سے قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مہم چل رہی تھی تب سے اس ضمن میں جو سب سے پیچیدہ اور اہم سوال کیا جاتا تھا وہ یہی تھا کہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی علاقوں کی زمینوں کی تقسیم اور یہاں بندوبست اراضی کا پیچیدہ مسئلہ کیسے اور کیونکر حل ہوگا۔ اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ قبائلی علاقوں کا نظم ونسق زمانہ قدیم سے قبائلی روایات کے تحت چلتا رہا ہے اور اسی ترتیب سے زمینوں کی تقسیم اور حدود کے تعین کا سلسلہ بھی قوموں اور ان کی ذیلی شاخوں کے درمیان باہمی اعتماد اور اتفاق رائے کی بنیاد پر ہوتا آیا ہے لیکن اب جب یہاں انگریز کا وضع کردہ بندوبست اراضی کا قانون اور نظام لاگو کیا جائے گا تو اس سے نئے قبائلی، خاندانی اور انفرادی مسائل اور تنازعات کا جنم لینا فطری امر قرار پائے گا لہٰذا ایسے میں توقع ہے کہ متعلقہ تمام ادارے ہر قدم خوب سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے۔