وزیر اعظم جناب عمران خان کا ٹیلی ویژن اسکرین پر ٹکر چل رہا تھا: ’’عالمی برادری نے مجھے مایوس کیا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کا المیہ اجاگر کرنے کے لیے انتھک محنت کی ، وہ ایک ہفتے تک نیو یارک میں مقیم رہے، عالمی رہنمائوں اور میڈیا کے لوگوں کے ساتھ پے درپے ملاقاتیں کیں۔ وہ شاید پر امید تھے کہ ان کی محنت رنگ لائے گی، کشمیریوں کی مظلومیت کے احوال سن کر عالمی راہنمائوں کے دل پسیج جائیں گے، وہ ظلم کے خلاف اُن کے ہم نوا بن جائیں گے، مودی اپنا 5اگست کا اقدام واپس لینے، تاریخ کے طویل ترین کرفیو اور محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہوجائے گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، کچھ یہی نتائج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سفارت کاری کے سامنے آئے۔ وہ اپنی سفارت کاری اور عالمی رہنمائوں سے ملاقاتوں، ٹیلی فونک رابطے کے بعد یکطرفہ طور پر قوم کو خوش کُن اور پاپولر خبریں دیتے رہے کہ دنیا ہمارے ساتھ ہے، وہ حالات کی سنگینی اور بھارتی مظالم کا ادراک کرچکی ہے، لیکن جب عملی مظاہرے کا وقت آیا تو اقوامِ متحدہ کے ادارۂ حقوقِ انسانی میں کم از کم مطلوبہ ووٹ بھی نہ مل سکے۔
عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انگریزی میں فی البدیہہ خطاب کیا۔ لکھی ہوئی تقریر کتنی ہی مربوط اور مدلّل کیوں نہ ہو، اس کی تاثیر فی البدیہہ خطاب جیسی نہیں ہوسکتی۔ فی البدیہہ خطاب میں مقرر کی باڈی لینگویج، چہرے کے تاثرات اور حرکات وسکنات کی بڑی تاثیر ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی ترجیحات کے مطابق کرپشن، منی لانڈرنگ اور اس حوالے سے مغربی ممالک کی چشم پوشی اور قانونی سُقم کا موثر انداز میں ذکر کیا کہ مغربی ممالک نے ان جرائم کی پردہ پوشی کے لیے آف شور کمپنیوں کا قانونی دروازہ کھول رکھا ہے، اس کے مؤثر سدِّباب کے لیے انہوں نے عالمی سطح پر قانون سازی اور اقدامات کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کی جانب متوجہ کیا اور بتایا کہ پاکستان ان تبدیلیوں سے متاثرہ دس سرِ فہرست ممالک میں شامل ہے۔ اسلاموفوبیا پر بھی انہوں نے اہلِ مغرب کے دوہرے معیارات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: دہشت گردی کو صرف اسلام سے جوڑا جاتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب کے پیروکار اگر دہشت گردی کا ارتکاب کریں تو اُسے ان کے مذہب سے جوڑنے کے بجائے انفرادی عمل قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: فحاشی کی حد تک برہنگی پر کسی کو اعتراض نہیں، مگر حجاب کو قابلِ نفرت اور خلافِ قانون قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر شکوہ کیا کہ مسلم حکمرانوں نے کبھی ان امور کے خلاف موثر آواز نہیں اٹھائی، اس حوالے سے اُن کا پیغام یہ تھا کہ بنیادی اسباب اور محرّکات کا ازالہ کیے بغیر شدت پسندی اور انتہاپسندی کا نہ مکمل سدِّباب کیا جاسکتا ہے اور نہ اُسے جڑ سے اکھیڑا جاسکتا ہے، جبکہ مغربی ممالک کا زعم یہ ہے کہ وہ طاقت سے یہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ انہوں نے پوری قوت سے اٹھایا، مدلّل اور موثر انداز میں کشمیر کا مقدمہ پیش کیا اور یہ بھی بتایا کہ چُن چُن کر کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، کسی ہندو کو کوئی گزند نہیں پہنچی۔ اہلِ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہوں نے کہا: سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کے پشتیبان سارے اہلِ مغرب تھے، دنیا بھرسے مجاہدین کو وہاں جمع کرنے والے بھی وہی تھے، مگر سوویت یونین کی پسپائی اور تحلیل کے بعد انہوں نے پاکستان کو حالات کے رحم وکرم پر تنہا چھوڑ دیا۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا اور نہ یہ پاکستان کی جنگ تھی۔ پس انہوں نے اقوامِ متحدہ میں کھڑے ہوکر جنرل پرویز مشرف کے اس دیرینہ موقف کو ردّ کیا کہ یہ ہماری جنگ ہے، اسے انہوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نام دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ستّر ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
انہوں نے راشٹریہ سیوک سنگھ کے فلسفے پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ مودی کی ذہنی ساخت اسی نظریاتی فلسفے سے تشکیل پائی ہے، اس نے اس انسانیت اور اسلام دشمن فلسفے پر عمل در آمد کا آغاز گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام سے کیا اور اب مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کردی ہے۔ آج تاریخ کے طویل ترین کرفیو اور محاصرے کو پچپن دن گزر چکے ہیں، اگر عالمی برادری نے مجرمانہ غفلت اور بے حسی بدستورجاری رکھی تو ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ باہم صف آرا دونوں حریف ممالک ایٹمی طاقت ہیں، لہٰذا عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کی نزاکت اور حساسیّت کا ادراک کرے۔ انہوں نے کہا: ’’میں دھمکی نہیں دے رہا بلکہ خبردار کر رہا ہوں، ایسا نہ ہوکہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں‘‘۔ جنابِ عمران خان نے نہایت تاسّف کے ساتھ عالمی طاقتوں کو ان کی خالص کاروباری اور استیصالی روش پر ملامت کیا اور کہا: اسّی لاکھ کشمیری مسلمانوں کی مظلومیت اورناموسِ رسالت کے حوالے سے ایک سو چالیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات کی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ بھارت کی سوا ارب کی مارکیٹ پر اُن کی نظر ہے، انہوں نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی امن وسلامتی، عدل وانصاف اور انسانی مساوات پر مبنی تعلیمات کا بھی حوالہ دیا۔
وزیرِ اعظم نے سائڈ لائن پر وزیرِ اعظم ملائشیا جناب مہاتیر محمد اور صدرِ ترکی جنابِ طیب اردوان کے ساتھ اسلاموفوبیا کے موضوع پرکسی این جی او کے توسط سے ایک مکالماتی نشست کا بھی اہتمام کیا، نیز انہوں نے ایران کو بھی مذاکرات پر آمادہ کرنے کی پیش کش کی۔ سعودی عرب اور ایران کا تنائو بھی پاکستان کے لیے ایک انتہائی دشوار گزار گھاٹی ہے، ایران ہمارا قریب ترین پڑوسی ہے اور اس کے افغانستان میں متوازی مفادات ہیں، جبکہ اقتصادی شعبے میں ہمارا سعودی عرب پر انحصار ہے۔ وزیرِ اعظم نے بجاطور پر متنبہ کیا کہ جب ایک بار خطے میں جنگ چھڑ گئی تو سب اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں اور پاکستان بھی لازمی طور پر ایک متاثرہ فریق ہوگا۔
سفارتی اور اِبلاغی سطح پر جو کچھ ممکن تھا، وہ انہوں نے کردیا، مگر اُن کے چہرے کے تاثرات سے عیاں تھا کہ وہ عالمی برادری بالخصوص فیصلہ ساز بڑی طاقتوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی پیغام دیا: جنگ ہمارا پہلا اور ترجیحی آپشن نہیں ہے، لیکن اگر خدانخواستہ دشمن نے جنگ مسلط کردی یا پر امن حل کے تمام امکانات ختم کردیے تو ہم جنگ اور آخری معرکے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اصل مسئلے کا حل تاحال ایک ڈرائونا خواب ہے۔ خان صاحب کو اندازا ہوچکا ہے کہ موجودہ عالمی سیاست میں حقوقِ انسانی، اَخلاقی اقدار اور اصول پسندی نام کی کوئی چیز نہیں، بس ہر ایک کی اپنی قومی ترجیحات، تجارت اور مالی مفادات ہیں، مزید یہ کہ اسلام اور مسلم دشمنی اُن سب میں قدرِ مشترک ہے۔ جنابِ عمران خان اپنی افتادِ طبع اور مزاج کے اعتبار سے صاف گو ہیں، مصلحت پسند نہیں ہیں، وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں، البتہ وہ خود بتاچکے ہیں کہ بند گلی میں کھڑے رہنے کے بجائے متبادل راستہ اختیار کرنا اُن کے نزدیک کوئی عیب نہیں، بلکہ حکمتِ عملی ہے۔
اب ہماری اجتماعی قومی وملّی دانش اور سیاسی وعسکری قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ان حالات میں آئندہ کیا حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں، ہمارے پاس متبادلات اور امکانات کیا ہیں، ہمارے عزائم کی راہ میں مشکلات کیا ہیں اور ہم ان میں سے اپنے لیے راستہ کیسے نکال پائیں گے۔ قومی مسائل بالخصوص مقبوضہ کشمیر کے المیے پر اپوزیشن کے پاس بھی حکومت کی حمایت کے سوا کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے، لیکن موجودہ مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے جس سیاسی استحکام، قومی وحدت اور فکری یگانگت کی ضرورت ہے، وہ مفقود ہے۔ ہماری دعا ہے: اللہ تعالیٰ بحیثیتِ ملک وقوم ہمیں راستیِ فکر وعمل نصیب فرمائے۔
جلد یا بدیر مودی کو کرفیو اور محاصرہ اٹھانا پڑے گا، اس کے بعد بھی شدید ردِّعمل متوقع ہے، بہت سے حقائق میڈیا پر پابندی کے سبب پردۂ خِفا میں ہیں، آخر آشکار ہوں گے، لہٰذا اُن کے حوالے سے تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ الغرض مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے احوال کے بارے میں سوالات کا ایک انبار ہے جو جواب کا منتظر ہے۔ اسی طرح استصوابِ رائے یا اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملنے کے مواقع کب سامنے آئیں گے، یہ مرحلہ سرِدست دور ہے۔ آیا بھارت 5اگست کے اقدام کو واپس لیتا ہے اور اس سے پہلے کی صورتِ حال بحال کرتا ہے یا نہیں، یہ فوری نوعیت کا سوال ہے۔ عالمی برادری نے تاحال مایوس کیا ہے اور دو ٹوک انداز میں کسی ایک مسئلے کے بارے میں بھی کوئی جھوٹی تسلّی بھی نہیں دلائی، امید کی کوئی خفیف سی کرن بھی دکھائی نہیں دی۔ اب بحیثیتِ مجموعی عمران خان، ہماری سول وعسکری دانش اور سیاسی قیادت کے لیے گہرے سوچ بچار کا وقت ہے۔
قوموں اور ملکوں کے تعلقات کی سائنس کا اب عمران خان کو خوب اندازا ہوگیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامعین ومخاطبین تاثّرات سے عاری، سپاٹ چہرے کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ تقریر کے استدلال اور مقرر کے جذبات سے لا تعلق رہتے ہیں، وہ اپنی اپنی حکومتوں اور ملکوں کے مفادات کے ترجمان ہوتے ہیں،وہ گونگے بہروں کی طرح بے حس ہوتے ہیں، دلوں پر تالے لگا کر پاسبانِ عقل کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ اپنے لیے داخلی مسائل پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جب وزیرِ اعظم کا تاریخی خطاب جاری تھا، امریکیوں کی ساری توجہ صدر کے مواخذے کے امکانات پر تھی۔ امریکی معاون نائب وزیرِ خارجہ ایلس ویلز نے انڈیا سے صرف پابندیاں اٹھانے کا کہا ہے، 5اگست کے اقدام کو واپس لینے کا نہیں کہا، اس کے برعکس ان کے بیان سے عیاں ہوا کہ پاکستان بدستور ٹیسٹنگ لیبارٹری میں ہے، انہوں نے کہا: ’’پاکستان کے ساتھ مستقبل کے تعلقاتِ کار کا انحصار اس کے آئندہ رویے اور عمل پر ہوگا‘‘۔ گویا کلین چٹ نہیں مل سکی۔ ایران کے ساتھ مکالمے کے امکانات پر بات ہوئی ہے اور ایران کے صدر جنابِ حسن روحانی نے کہا: ’’انہوں نے جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے اصرار پر بعض امریکی اہلکاروں سے ملاقات کی ہے اور 2015 کے ایٹمی معاہدے میں ردّوبدل کے امکانات کو رد نہیں کیا، لیکن کہا: اس کا مدار پابندیاں اٹھانے پر ہے‘‘۔