!اللہ توفیق دے

157

 عزت مآب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کے اس فرمان سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارا آج ہی ہماری تاریخ ہے، مورخ آج کے واقعات اور حالات ہی کو بطور تاریخ پیش کرے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کل کا طالب علم ہماری تاریخ پڑھے گا تو ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا۔ وہ یہ جان کر یقینا حیران رہ جائے گا کہ اس کے آبائو اجداد گھروں، بازاروں اور گلی کوچوں ہی میں نہیں تعلیمی اداروں، عدالتوں، حتیٰ کہ اسمبلیوں میں بھی لڑنے جھگڑنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے تھے۔ وکالت اور سیاست ایک معزز اور محترم شعبہ ہے اس سے وابستہ افراد کو معاشرے کا مہذب ترین انسان سمجھا جاتا ہے، مگر ہمارے وکلا اور سیاست دان اپنی مرضی کے خلاف سنتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی گھن گرج کے ساتھ بارش ہوتی ہے کہ سب کچھ اس طوفان بدتمیزی میں بہہ جاتا ہے۔ جسٹس صاحبان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ انتہائی محنت اور دیانت داری سے فیصلے کرتے ہیں، اس کے باوجود تنقید کی زد میں رہتے ہیں اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ عدلیہ پر تنقید اور تبصرہ کرنے والوں میں اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان فیصلوں کو پڑھتے ہی نہیں یا سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ قابل احترام چیف صاحب! عدالتوں کی کارکردگی اتنی ناقص اور غیر ذمے دارانہ ہے کہ فیصلے پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں، پیشی پیشی کا مکروہ کھیل دنیا کی کسی عدالت میں نہیں کھیلا جاتا، مگر المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ججز بھی یہ مکروہ اور شرمناک کھیل کھیلتے ہیں، اکثر وکیل پیشی در پیشی کا کھیل ضرورتاً کھیلتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس اتنے مقدمات ہوتے ہیں کہ ان کی پیروی کے لیے فلمی اداکاروں کی طرح ٹائم ٹیبل بنالیتے ہیں اور ان کے منشی اس کے مطابق عدالتوں سے پیشیاں لیتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تماشا بھی ہوتا ہے کہ جج عدم پیروی کی بنا پر مقدمہ خارج کردیتا ہے۔ جج کی اس کارکردگی پر وکلا شکرانے کے نفل ادا کرتے ہیں، کیوں کہ کسی مقدمے کا عدم پیروی کی بنیاد پر اخراج کا مطلب دو تین ماہ کی پیشی ہوتا ہے۔ ایک ماہ تک تو وکیل مقدمے کی بحالی کی درخواست ہی نہیں دیتا اور جب درخواست دیتا ہے تو پیشی پیشی کا ابلیسی چکر حرکت میں آجاتا ہے اور اکثر یہ ابلیسی چکر کئی کئی ماہ تک چلتا ہے کیوں کہ مقدمہ بحال کرنے کے لیے جج کو مخالف فریق کی رضا مندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دوسرے فریق کی رضا مندی کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟۔ مقدمہ خارج کرکے بحال کرنا وقت کا زیاں ہے اور فریق ثانی کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنا۔ سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ سائلین کو ذہنی اذیت دینے کا حق کس نے دیا اور کیوں دیا؟۔ بحالی کی درخواست کو مسترد کردیا جائے تو انصاف کی جلد فراہمی یقینی ہوسکتی ہے۔ ان دنوں چیف جسٹس آف پاکستان پولیس کی اصلاح کے لیے خاصے سرگرم اور فعال دکھائی دے رہے ہیں۔ خدا کرے وہ اپنے مقصد میں شاد و کامران ہوں مگر یہ دعا بھی ضروری ہے کہ خدا انہیں یہ توفیق بھی عطا کرے کہ وہ نظام عدل کے نظام سقوں کی بھی اصلاح کریں، کیوں کہ جمہوریت میں عدلیہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے اگر عدالتی نظام درست ہو تو وکلا گھونسوں اور لاتوں سے لڑنے کے بجائے اپنا مقدمہ لڑیں۔ عدالتی نظام درست خطوط پر استوار ہو تو کسی بھی ادارے کے سربراہ کو یہ جرأت ہی نہ ہو کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرے، کیوں کہ آئین کی دفعہ 6 نائب قاصد سے لے کر وزیراعظم تک سبھی پر لاگو ہوتی ہے۔ آرٹیکل 6 کے غیر فعال ہونے سے کرپٹ افسران کو فعال ہونے کا موقع ملتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔