تقریر

306

 وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر پر تبصرے اور تجزیے جاری ہیں۔ مودی کو کشمیر دینے کے بعد بلاشبہ یہ ایک بہترین تقریر تھی۔ موثر انداز میں مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان کی بدن بولی، پراعتماد لب ولہجہ، دلائل، تندی اور تیور محسوس کیے جارہے ہیں، سراہے جارہے ہیں۔ مخالف ہوں یا مداح سب کا اتفاق ہے کہ یہ ولولہ انگیز خطاب تھا۔ یہ تقریر طویل عرصے محسوس کی جاتی رہے گی۔ چاروں نکات انہوں نے عمدگی سے پیش کیے لیکن اسلام اور کشمیر کے باب میں ان کا بیان عالی شان اور قوت اور حرارت سے بھر پور تھا۔
تقریر کی غیر معمولی ستائش میں کچھ تضادات ہیں جن پر کم ہی بات کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک تباہ کن المیے سے دوچار ہے جہاں جسم روندے جارہے ہیں۔ روحیں کچلی جارہی ہیں۔ عزتیں پامال کی جارہی ہیں۔ انسانیت زمین میں گاڑدی گئی ہے۔ انسانی سماج کرفیو کی عفونت کے حصار میں ہے۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات اور اقوام متحدہ تقریر میں وزیراعظم عمران خان مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اٹھانے پر شدت سے زور دیتے رہے ہیں۔ یقینا انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کرفیو اٹھتے ہی کشمیر میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔ یہ کہہ کر تو آپ مودی کو کرفیو نہ اٹھانے کا جواز مہیا کررہے ہیں۔ عمران خان کے الفاظ کا سہارا لے کر بھارت کرفیو کو مزید طول دے سکتا ہے۔
5اگست کے بعد پاکستان نے ہر فورم پر بھارت سے جنگ نہ لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے ہم دنیا پر دھاک بٹھانا چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف ایٹمی جنگ کا ذکر مسلسل اور متواتر کررہے ہیں۔ یہ اسٹرٹیجک غلطی ہے۔ دنیا کے لیے پا کستان ایک ناپسندیدہ ایٹمی قوت ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا بار بار ذکر کرکے دنیا کے اندیشے درست ثابت کیے جارہے ہیں کہ پاکستان واقعتا غیر ذمے دار ایٹمی ریاست ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام پہلے دن سے دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ اسرائیل اور بھارت کی طرف سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ عمران خان کی ایٹمی جنگ کی دھمکیاں ایسی کوششوں کو جواز فراہم کرسکتی ہیں۔ بھارتی مندوب نے ایٹمی ہتھیاروں کے ذکر کو دھمکی سے باور کیا ہے۔ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات کم اور بہت ہی کم ہیں۔ بار بار اس کا ذکر پاکستان کے لیے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ عام ہتھیاروں کی جنگ کی ہمت نہیں ذکر ایٹمی جنگ کا کررہے ہیں۔
مودی چالاک اور مکار دشمن ہے جو پوری تیاری کے ساتھ وار کرتا ہے۔ کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑتا۔ کشمیر کے انضمام کے ساتھ ہی اس نے جس تیز رفتار سفارت کاری کا مظاہرہ کیا وہ اس کا ثبوت ہے۔ وہ جس وقت عالمی رہنمائوں سے ملا قاتیں کررہا تھا، اس کا وزیر خارجہ ملکوں ملکوں پھر رہا تھا ہمارے وزیراعظم ٹوئٹر پر جنگ لڑ رہے تھے اور وزیر خارجہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے اعلیٰ سفارت کاری کے مظاہرے کررہے تھے۔ ہم اپنے تئیں شاد ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے عالمی میلے میں چند سربراہان، تھنک ٹینکس اور اخبارات کے بورڈز سے مل کر اور چند انٹرویو دے کر سفارتی سطح پر مودی کو پچھاڑ دیا ہے یہ خوش فہمی ہے۔ مودی نے اپنی تقریر میں کشمیر اور عمران خان کا ذکر نہ کرکے بتادیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ان کوششوں کو وہ ایک وقتی ابال سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ جس تندی اور جوش وخروش کا مظاہرہ کیا گیا ہے کیا اسے مستقل برقرار رکھا جا سکے گا۔ جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے اس صورت میں جب کسی کو ہماری سیمابی طبیعت اور غیر مستقل مزاجی کا علم نہ ہو۔
عمران خان نے بھارتی وزیراعظم مودی کے ماضی، آر ایس ایس سے تعلق، آر ایس ایس کی نسل پرستی اور ہندوتوا کے نظریہ کو بڑی کامیابی سے ٹارگٹ کیا ہے۔ ان کی تقریر کا مخاطب مغرب تھا۔ وزیراعظم بارہا دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ مغرب کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے خیال میں مغرب کے سامنے دو راستے ہیں: انسانیت یا بھارت سے تجارت۔ یہ گمان کہ مغرب انسانیت کو ترجیح دے گا عظیم غلطی ہے۔ مغرب روح سے زیادہ مادے پر یقین رکھتا ہے۔ استعماریت کی روح آج بھی ان میں رچی بسی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام۔ تجارت اور مالی آسودگیوںکی گرم بازاری میں انسانیت کو فوقیت دے!!! ایسا ممکن نہیں۔ جو مسلمانوں کے باب میں حیوانیت اور دشمنی کسی طور ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ انتخاب ان کے سامنے رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے جہاں انسانیت کا ارتقا رک گیا ہے۔ جن کے حکمران، میڈیا اور ذہن ساز صلیبی جنگوں کی فضا میں جی رہے ہیں۔ وہ اہل کشمیر کی مدد کے لیے بھارت کے مقابل اتریں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ کیا ایسا تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔
مودی اندرون ملک جس قدر طاقت ور ہے سعودی عرب، خلیجی ممالک اور پورے مغرب کی اسے جس طرح تائید حاصل ہے۔ کون ہے جو اسے مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کرسکے۔ کیا اقوام متحدہ!!! سلامتی کونسل کے مستقل ارکان!!! جن استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مسلمانوں اور ان کے ممالک کو تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ منصفانہ ثالثی کی امریکا سے امید وہ جس نے افغانستان اور عراق پر وحشیانہ بمباری کے بعد قبضہ کیا۔ فلسطین سے لے کر مشرق وسطیٰ اور دنیا کے چپے چپے میں خون مسلم کو پانی سے زیادہ ارزاں بہایا ہے۔ یہ سلامتی کونسل ہی ہے جس کی قراردادوں نے کشمیر پر قبضے کے لیے بھارت کو وقت دیا ہے۔ امریکا، مغرب اور اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کی توقع ایک فریب ہے۔ بھیڑوں کی مدد کے لیے بھیڑیے سے امیدیں وابستہ کرنا کیا اس کی کہیں گنجائش ہے۔
کوئی ہے جو بتا سکے مسئلہ کشمیر کا جہاد کے علاوہ کوئی حل ہے۔ یقینا جہاد کے سوا کوئی حل نہیں۔ جہاد مسلمانوں کا نہ صرف اندرونی طور پر دفاع کرتا ہے بلکہ انہیں بیرونی جارحیت سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اسلام طاقت اور قوت کا مذہب ہے۔ اسلام یہ ہرگز گوارا نہیں کرتا کہ مسلمان قوت اور شوکت کے بلند مقام سے گر کر سامراج کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل کریں۔ اسلام کوئی قدیم اور گیا گزرا نظریہ نہیں ہے۔ اسلام آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جیسا کہ گزشتہ ادوار میں تھا۔ اسلام آج بھی اسی طرح نافذ ہوسکتا ہے جیسا کہ رسالت مآب کے دور میں نافذ تھا۔ صرف مسلمان حکمرانوں کا اخلاص اور اسلام سے کمٹمنٹ درکار ہے کہ ہمیں ہر حال میں اسلام نافذ کرنا ہے۔ اسلام نافذ کیجیے اسلام آپ کو وہ قوت دے گا کہ کشمیر تو کجا کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے نہ آپ کو عالمی برادری سے التجائیں کرنی پڑیں گی، نہ کسی سپر پاور کے صدر سے ثالثی کی درخواست کرنی پڑے گی اور نہ کفر کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر تقریریں کرنی پڑیں گے۔
عالم اسلام کے یہ حکمران جو مغرب کے سامنے اسلام کا دفاع کررہے ہیں، کیمروں کے سامنے نمازیں اور عمرے ادا کررہے ہیں ان کے قول اور فعل کا تضاد بتاتا ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یہ حکمران جب چاہتے ہیں اسلام کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ مسلمانوں کے وفادار ہیں نہ اسلام کے۔ یہ حکمران اپنے ممالک، مسلمانوں اور اسلام سب کے مجرم ہیں۔ ان حکمرانوں کی وجہ سے بقول ڈاکٹر اسرار علیہ الرحمہ ’’ہماری پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں۔ ہمارے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں۔ ہماری صلح اور جنگ کسی کے اشارے پر ہوتی ہے۔ یہ ذلت و مسکنیت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے‘‘۔ ان حکمرانوں کی نمازوں سے دھوکا کھائیں نہ سجدوں اور تقریروں سے۔