سانحہ بلدیہ… انصاف کا منتظر

154

سانحہ بلدیہ ستمبر 2012ء میں ہوا تھا یہ آتشزدگی کا انتہائی خوفناک واقعہ تھا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس واقعے میں 264 افراد مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ لگنے والی آگ اس قدر خوفناک تھی کہ اس پر اگلے دن تک قابو نہ پایا جاسکا۔ بعد میں آگ پر قابو پانے کے باوجود اُن مقامات تک رسائی نہیں ہوپائی جہاں لوگ موجود تھے۔ اور مدد کے لیے پکارتے پکارتے جان ہار بیٹھے تھے۔ اس وقت یہ سوال ہر ایک کی زبان پر تھا کہ آخر آگ لگنے کی وجہ کیا تھی؟ لوگ آگ لگنے کے بعد بچائے کیوں نہ جاسکے؟ ایمرجنسی اور مین گیٹ پر تالے کس نے ڈالے تھے؟ فائر بریگیڈ وقت پر کیوں پہنچا اس کے پاس پانی کیوں نہیں تھا؟ ان سوالوں کے جوابات آج اتنے برسوں کے بعد عدالت میں فیکٹری کے مالک دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے کارکنان کا فیکٹری میں بلا روک ٹوک آنا جانا تھا۔ جہاں اس کے دہشت گرد ماہانہ پچیس لاکھ روپے بھتا لیتے تھے۔ اس کے علاوہ الیکشن اور دوسرے ناموں سے بھی بھتا وصول کرتے تھے، زکوٰۃ کے نام پر الگ لاکھوں کی پرچیاں پکڑاتے تھے۔
فیکٹری میں آگ لگانے کی وجہ بھتے کی مد میں پچیس کروڑ کا مطالبہ تھا۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے حماد صدیقی نے فیکٹری میں شراکت کا مطالبہ بھی کیا تھا جس کو پورا نہ کرنے پر گیارہ ستمبر 2012ء کو فیکٹری میں آگ لگادی گئی۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی تھی کہ جس سے اندازہ ہوگیا کہ یہ آگ لگائی گئی ہے۔ اس وقت سندھ حکومت میں اتحادی اور بلدیہ کراچی میں ایم کیو ایم کی حکومت تھی۔ آگ لگنے کے بعد مسلسل رابطے کے باوجود فائر بریگیڈ نہیں پہنچی اور جب کئی گھنٹے کے بعد پہنچی تو اُس کے پاس پانی ہی نہیں تھا اور نہ ہی مناسب آلات تھے۔ ہم نے فائر بریگیڈ کو اپنے ہائیڈرنٹ سے پانی دینے کی پیشکش کی جس کو انہوں نے مسترد کردیا اور کہا ہمیں اپنا کام کرنے دو… نہ جانے وہ کون سا کام کررہے تھے؟ جب کہ پانی ہی نہیں تھا۔ جس وقت آگ لگی تو اُس وقت ایم کیو ایم کے زبیر چریا جو آگ لگانے میں ملوث تھا کینٹین میں بیٹھ کر چرس پی رہا تھا۔ یہ بات فیکٹری کے ملازمین نے بعد میں بتائی۔ ایک اور ملزم رحمان بھولا جس نے دروازے اور گیٹ میں تالا لگایا۔ فیکٹری مالکان جن کی فیکٹری اور کاروبار کو ختم کیا گیا بعد میں ایم کیو ایم نے انہی کے خلاف مقدمہ درج کیا اور انہیں اصل ملزم کے طور پر پیش کیا۔ فیکٹری مالکان کے وکیل نعمت اللہ رندھااوا کو چند پیشیوں کے بعد ہی قتل کردیا گیا۔ اب بھی فیکٹری مالکان جان کے خوف سے دبئی سے ویڈیو بیان ریکارڈ کرارہے تھے۔ فیکٹری مالکان کا کہنا تھا کہ اس سانحے کے بعد بھی ایم کیو ایم کے لوگوں نے اُن کی جان نہیں چھوڑی۔ 2013ء میں ان کے انکل کو اغوا کرکے بھاری تاوان وصول کیا اس کے بعد بھی انہیں دھمکیاں ملتی رہیں۔ عشرت العباد نے پیغام بھیجا کہ گورنر ہائوس میں گرفتاری دے دیں، گرفتاری دے دی گئی تو جیل میں معاملات طے کرنے کے لیے کہا گیا اور ہر مرنے والے کے اہل خانہ کے لیے چار لاکھ روپے ایم کیو ایم کو دینے کا کہا گیا۔ اس کے لیے سخت دبائو ڈالا گیا ہم نے ان کے کہنے پر پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ روپے ایم کیو ایم کے علی قادری کے اکائونٹ میں جمع کرائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان تمام حقیقتوں پر سے جو آج پردہ اُٹھایا گیا ہے ان پر کبھی پردہ پڑا ہی نہ تھا یہ سارے ظلم پہلے بھی اظہر من الشمس تھے۔ ایم کیو ایم کے درندوں نے پیسے کے لیے سفاکی کی ساری حدیں پار کرلی تھیں اور ان مظالم کے بعد بھی وہ مطمئن نہ تھے۔ 264 مظلوم محنت کش زندہ جلا کر راکھ کردیے گئے لیکن کوئی ایک ملزم پکڑا نہ جاسکا۔ حالاں کہ حکومت سے لے کر عوام تک ایک ایک ملزم اور اس کے سرپرست کو جانتے پہچانتے تھے۔ اس سانحے کے متاثر غریب خاندان کی زندگیاں تباہ ہوگئیں، وہ آج بھی انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے سانحہ بلدیہ کا نوحہ اپنی تقریروں میں زور شور سے پڑھتے تھے لیکن اب وہی قاتل وہی ظالم اُن کے ساتھ ان کے اقتدار کا حصہ ہیں، وہ تو اپنی زہرہ آپا کو بھی بھول چکے ان کے قاتلوں کے لیے ان کے دل اور گھر دونوں کے دروازے کھلے ہیں۔ اب انہیں وہ چور اور قاتل محسوس نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ نفیس محسوس ہوتے ہیں اتنے کہ وہ انہیں یہ کہنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ یہ اقتدار کا نشہ ہے جو آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سانحہ بلدیہ کا ہر کردار آج پوری قوم کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انصاف اور قانون ملزمان کو بچانے کے لیے دبائو کا شکار ہوجائیں کیوں کہ ایم کیو ایم کے سرپرست آج بھی حکومتی ایوانوں میں ٹہل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت جو کبھی مظلوموں کی داد رسی کا نعرہ لگاتی تھی آج انہی کی پشت پناہی کے لیے سایہ مہربان ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ ہر دور میں ظالم کے آگے دیوار بننے اور حق کی گواہی دینے کے لیے کسی نہ کسی کو ضرور چنتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی اس کی مثال ہے۔ عشروں ایم کیو ایم کے ظلم و جبر کا نشانہ بننے کے باوجود جماعت اسلامی کے کارکنان نے کبھی حق کے لیے سینہ سپر ہونے میں ایک لمحہ کی کوتاہی نہیں کی۔ اس سانحے کے متاثرین کے لیے اس وقت جماعت اسلامی نے پچاس لاکھ کا اعلان کیا تھا جس کو ایک ماہ کے اندر متاثرین میں تقسیم بھی کردیا تھا۔ اس کے ساتھ متاثرہ خاندان کے یتیم بچوں کی مفت تعلیم کا بھی ذمہ لیا تھا۔ یہ ذمے داری حکومت کی تھی اس وقت کی مشترکہ حکومت میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شامل تھے لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کسی ذمے داری کا ثبوت نہیں دیا بلکہ لواحقین کے لیے دی جانے والی رقم بھی مل جل کر ہڑپ کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس پر عمل کیا۔ کیا جلائے جانے والے مزدور اور ان کے لواحقین کی آہیں اُن کا پیچھا نہیں کریں گی؟ یہ انتہائی ظالم اور سفاک قاتل حقیقت میں انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں۔ کجا کہ انہیں حکومتی ایوانوں میں اقتدار کی سندوں پر بیٹھایا جائے۔ ریاست مدینہ کے دعویداروں کو یاد رکھنا چاہیے اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔