مہنگائی میں مسلسل اضافہ

216

احوال معیشت
ملک میں اعداد و شمار جمع کرنے اور انہیں ترتیب دینے کا کام جس وفاقی ادارے کے ذمے ہے اس کا نام پاکستان بیورو آفس اسٹیٹکس جو ملک کے مختلف معاشی و سماجی شعبوں مثلاً افرادی قوت، صحت، تعلیم، روزگار، زراعت، صنعت، خواتین کی صورتِ حال اور غربت کی سطح وغیرہ پر انتہائی تفصیلی اعداد و شمار ماہانہ اور سالانہ بنیاد پر پیش کرتا ہے، کوئی یہ پوچھ سکتا ہے اتنی بھاری بھرکم رپورٹیں گنتی، سروے اور شماریات کی کیا ضرورت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہی اعداد و شمار کے توسط سے ملک کے کسی شعبے کی صحیح صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ریسرچ کرنے والے افراد انہی کی مدد سے اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں مختلف شعبوں میں منصوبہ بندی کرنے والے افراد اور محکمے اپنی رپورٹوں کی مدد سے آئندہ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے انہی اعداد و شمار کی مدد سے پاکستان کی درجہ بندی (RanKing) کرتے ہیں۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس نے پچھلے سال ستمبر کے مقابلے میں 2019ء کے ستمبر کے لیے مہنگائی (Inflation) میں اضافے کی شرح 11.4 فی صد کا تخمینہ لگایا ہے۔ یعنی مجموعی طور پر پاکستان کا ایک شہری اپنی ضروریات زندگی کے لیے جو اشیا و خدمات استعمال کرتا ہے ان کی قیمتیں 11.4 فی صد بڑھ گئی ہیں۔ مہنگائی کی اس شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتیں اور معاشی ماہرین پوری کوشش کرتے ہیں۔ مختلف اقدامات اٹھاتے ہیں، اصلاحات کرتے ہیں اور چار پانچ فی صد سے زیادہ آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ لیکن پاکستان میں موجودہ حکومت کی یہ نااہلی، ناتجربہ کاری اور ناکامی ہے کہ مہنگائی کی شرح اتنی بلند ہوگئی۔
مہنگائی کی شرح کی مستند پیمائش کے لیے پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے افراد ملک میں 35 چھوٹے بڑے شہروں میں جا کر کھانے پینے کی اشیا، رہائش کی قیمت، لباس، ٹرانسپورٹ، علاج معالجے کے اخراجات، تعلیمی اداروں کی فیسیں، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں وغیرہ جن کی مجموعی تعداد 356 اشیا و خدمات ہے ان کی قیمتوں میں اضافہ نوٹ کرتے ہیں اور پھر پچھلے سال کی قیمتوں سے موازنہ کرتے ہیں اور اس کا ایک انڈیکس (Consumer Price Index) بناتے ہیں جس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح متعین کی جاتی ہے۔ اس محکمے نے یہ بھی بتایا ہے کہ پچھلے ستمبر 2018ء کے مقابلے میں گزشتہ ستمبر میں مرغی، ٹماٹر، پیاز، سبزیاں، انڈے، آلو، کوکنگ آئل، چینی، دالیں اور آٹے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ تمام اشیا ہیں جن کی قیمتوں میں اضافے سے غریب اور متوسط طبقے کے گھریلو بجٹ پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور اسے اپنی محدود آمدنی میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
رواں مالی سال 2019-20 کی پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر اپنے ٹیکسوں کا ہدف پورا نہ کرسکا اور 1071 ارب روپے کے بجائے 960 ارب روپے جمع ہوئے ہیں اور اس طرح 111 ارب روپے کا شارٹ فال ہے، جب کہ اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں آئی ایم ایف کا وفد سہ ماہی جائزہ لینے پاکستان آرہا ہے۔ چناں چہ پاکستان حکومت کمزور اور خستہ حال معیشت میں سے مزید ٹیکس جمع کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے، اس سلسلے میں ایک کام تو یہ کیا گیا کہ اوگرا نے ماہ اکتوبر کے لیے پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں جو کمی تجویز کی تھی، کیوں کہ دنیا میں آئل کی قیمتیں گری ہیں، اس کو رد کرتے ہوئے پچھلے ماہ کی قیمتوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اسی طرح فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں یہ اعلان ہوا کہ 53 پیسہ فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا لیکن اگلے دن وہ اضافہ 2.50 روپے فی یونٹ تک پہنچ گیا اور باخبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہے۔ اس میں کے الیکٹرک کے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے مستثنیٰ رہیں گے۔
وزیراعظم عمران خان آج کل امریکا سے واپسی کے بعد مہنگائی کے حوالے سے اپنی میٹنگوں میں بہت بات کررہے ہیں اور مہنگائی میں اضافے پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں، کبھی وہ اعلان کرتے ہیں روٹی کے تنوروںکے لیے گیس سستی فراہم کی جائے گی، اپنی ٹیم پر یہزور ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مہنگائی روکنے کے لیے ہر اقدام کیا جائے۔ لیکن یہ تمام نمائشی اقدامات ہیں، جب بار بار بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم نہیں کی جائیں گی، مختلف کھانے پینے کی اشیا پر 17 فی صد سیلز ٹیکس عائد کردیا جائے گا تو مہنگائی میں اضافہ تو ہوگا۔ مہنگائی میں کمی اعلانات سے نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کے ذریعے ہوگی۔