روبرو
ملائیت صرف مذہب میں نہیں ہوتی ہماری پوری زندگی سیکولر اور لبرل ملائوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کرتے گزر گئی ہے۔ سیکولر اور لبرل لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ملّا کسی کو اپنی تعبیر کے دائرے سے باہر سانس لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کبھی مذہبی لوگوں کو سیاسی غلبہ حاصل ہی نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ذرائع ابلاغ میں بھی مذہبی لوگوں کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ چناں چہ مذہبی لوگ چاہیں بھی تو سیکولر اور لبرل لوگوں کا قافیہ تنگ نہیں کرسکتے۔ البتہ پاکستان ہی نہیں ترکی، تیونس، مصر اور انڈونیشیا جیسے مسلم ملکوں میں سیکولر عناصر سیاست، فوج اور ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور انہوں نے زندگی کے ہر دائرے میں مذہبی لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ مگر ’’مذہبی ملائوں‘‘ کو سب جانتے ہیں مگر ’’سیکولر ملائوں‘‘ اور ’’لبرل ملائوں‘‘ کا ذکر کہیں نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ سیکولر اور لبرل ملائوں کے ’’فتوے‘‘ بھی کہیں زیر بحث نہیں آتے۔ اتفاق سے آج کے کالم میں پاکستان کے ایک جدید، سیکولر اور لبرل ملّا اور ان کا ’’ادبی فتویٰ‘‘ زیر بحث ہے۔
زیر بحث جدید، سیکولر اور لبرل ملّا کو لوگ ناصر عباس نیئر کے نام سے جانتے ہیں۔ موصوف لاہور کے ایک کالج میں اردو ادب کے استاد ہیں، نقاد ہیں اور افسانہ نویسی بھی کرتے ہیں۔ ناصر عباس نیئر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور ان کے اردو اور انگریزی مضامین اخبارات میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ چند روز پیشتر انہوں نے روزنامہ ڈان کراچی میں عمیرہ احمد کے ناول ’’الف‘‘ پر طویل تبصرہ کیا ہے۔ اس ناول میں ناصر عباس نیئر کو جو بڑے بڑے ’’عیوب‘‘ نظر آئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ناول کے تمام مرکزی کردار اپنی ’’مستند خودی‘‘ یا Authentic Self‘‘ کی تلاش میں نکلتے ہیں اور بالآخر ’’شوبزنس‘‘ کی چمکیلی، بھڑکیلی اور رسیلی دنیا کو چھوڑ کر ’’مذہبی انسان‘‘ بن جاتے ہیں۔ ناول کا دوسرا ’’عیب‘‘ یہ ہے کہ ناول کے مرکزی کرداروں کو ’’کامیابی‘‘ کے بجائے ’’فلاح‘‘ اور ’’نجات‘‘ کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ ناول کا تیسرا ’’عیب‘‘ یہ ہے کہ ناول کے مرکزی کردار ’’دل‘‘ کو ’’عقل‘‘ پر فوقیت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان ’’عیوب‘‘ کے بیان سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ناصر عباس نیئر کا اصل اعتراض یہ ہے کہ عمیرہ احمد کا ناول اپنے موضوع، مواد اور کرداروں کے اعتبار سے ’’مذہبی‘‘ کیوں ہے۔ اب اس سلسلے میں ان کی اصل رائے ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
“The novel was an art form invented by modern man to resist orthodoxy”
(Dawn-22 September-2019)
ناصر عباس نیئر کہہ رہے ہیں کہ ناول ایک ایسی ادبی صنف ہے جسے ’’جدید انسان‘‘ نے ’’قدامت‘‘ کی مزاحمت کے لیے ایجاد کیا تھا۔ آپ یہاں لفظ قدامت سے گمراہ نہ ہوں۔ یہاں قدامت کا مطلب قدامت نہیں ’’مذہب‘‘ ہے مگر ناصر عباس نیئر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں ’’ابھی‘‘ یہ لکھتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ ہماری مذکورہ رائے کی تصدیق خود ناصر عباس کے مضمون میں موجود ان فقروں سے ہوجاتی ہے۔ عمیرہ احمد کے ناول کے حوالے سے انہوں نے لکھا۔
“This sort of fiction was basically an exercise of purging art of its secularity. Ahmed’s novel serves as a bulwark against all signs and forms of a secular free artistic life. It is obvious who requires such kind of fortification aginst genuine art and secular thinking”
ترجمہ: ’’اس طرح کا فکشن بنیادی طور پر آرٹ کو سیکولر فکر سے پاک کرنے کی مشق ہے۔ عمیرہ احمد کے ناول سیکولر، آزاد اور فنکارانہ زندگی کے تمام نشانات اور اصناف کے خلاف حفاظتی دیوار کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ حقیقی آرٹ اور سیکولر فکر کے خلاف ایسی قلعہ بندی کی ضرورت کسے ہے؟‘‘۔
لیجیے اس اقتباس سے ثابت ہوگیا کہ قدامت یا orthodoxi سے ناصر عباس نیئر کی مراد واقعتاً مذہب اور مذہبی فکر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ناصر عباس نیئر نے دعویٰ کیا ہے کہ ناول اپنی اصل میں ادب کی ایک سیکولر صنف ہے اور اسے مذہب کی مزاحمت کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ یہ ہیں ایک سیکولر اور لبرل ’’ملّا‘‘ کے ’’فتوے‘‘۔ مگر سوال یہ ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔
جدید دنیا میں ایک بھی ایسا بڑا مسلم مفکر، دانش ور یا نقاد نہیں گزرا جس نے کہا ہو کہ ادب یا آرٹ صرف مذہبی ہوتا ہے۔ ہر پڑھے لکھے مسلمان کو معلوم ہے کہ ادب مذہبی بھی ہوسکتا ہے، سیکولر بھی، لبرل بھی، کمیونسٹ بھی، قوم پرستانہ بھی۔ مگر ناصر عباس نیئر نے صاف کہا ہے کہ ناول لکھو تو سیکولر ناول لکھو، اس لیے کہ ناول مذہب کی مزاحمت کے لیے ایجاد کیا گیا ہے، مذہب کے فروغ کے لیے نہیں۔ اس موازنے سے صاف ظاہر ہے کہ مذہبی ذہن بہت کشادہ اور وسیع المشرب ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ نہیں کہتا کہ شاعری کرو تو صرف مذہبی شاعری کرو، افسانہ لکھو تو صرف مذہبی افسانہ لکھو، ناول لکھو تو صرف مذہبی ناول لکھو۔ مسلمانوں کی یہ کشادہ دلی اور وسیع النظری شخصی یا قومی و ملی شے نہیں ہے۔ یہ کشادہ دلی اور وسیع المشربی اسلام کے مزاج کا حصہ ہے۔ اس کے دو بڑے مذہبی دلائل ہیں۔
اسلام کہتا ہے اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ ادب کی ہر صنف ایک سطح پر ’’جمالیاتی تجربہ‘‘ ہوتی ہے۔ چناں چہ مسلمان ادب پارے میں موجود غیر مذہبی فکر پر تو سخت اعتراض کرے گا مگر ادب کے جمالیاتی پہلو کی تعریف کرے گا۔ مسلمانوں کا یہ رویہ رسول اکرمؐ کے ایک فرمان سے ماخوذ ہے۔ امراالقیس عہد جاہلیت کے بڑے شاعروں میں سے تھا۔ رسول اکرمؐ سے ایک بار امراالقیس کی شاعری پر تبصرے کے لیے کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ امراالقیس نابینا مضامین کو بینا بنا دیتا ہے۔ مگر وہ جہنم کے سرداروں میں سے ایک سردار ہے۔ رسول اکرمؐ کے اس ارشاد مبارک کے دو پہلو ہیں۔ رسول اکرمؐ نے امراالقیس کے ’’فن شاعری‘‘ کی غیر معمولی تعریف فرمائی ہے مگر اس کی شاعری کے اخلاقی پہلو کی وجہ سے اس کو جنہوں کا ایک سردار قرار دیا ہے۔ امرا القیس کی مذمت کا سبب صرف یہ نہیں ہے کہ اس کے شاعرانہ مواد میں جنسی خیالات کی فراوانی ہے۔ محض جنسی خیالات کے بیان سے کوئی فن پارہ ’’فحش‘‘ نہیں ہوجاتا۔ امرا القیس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی شاعری میں جنس ایک ’’قدر‘‘ بن گئی ہے۔ اس نے ایک ’’تناظر‘‘ کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور اس نے وجود کی کلیت یا wholenessکو جنس تک محدود کرکے زندگی کی کلیت یا wholeness کی تردید، تکذیب اور توہین کی ہے۔ چناں چہ اس کے یہاں جنس کا بیان واقعتا فحش ہوگیا ہے۔ ادب کے بارے میں رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد مسلمانوں کا دائمی تناظر ہے۔ اس تناظر کے تحت ہم سیکولر ادب کو بھی ادب تو کہیں گے مگر اس کے روحانی اور اخلاقی پہلو کی وجہ سے اسے ہمارے معاشرے میں بلند آرٹ کا درجہ حاصل نہ ہوسکے گا اور نہ معاشرے کو اس کے مطالعے کی ترغیب دلائی جائے گی۔ ان حقائق سے معلوم ہوا کہ ملائیت اگر واقعتا بُری چیز ہے تو مذہبی ملائیت کے مقابلے پر سیکولر اور لبرل ملائیت اپنی تنگ نظری کی وجہ سے بڑی ہولناک چیز ہے۔
ناصر عباس نیئر کے اس خیال میں بھی کوئی معنی نہیں کہ ناول جدید لوگوں نے قدامت یا مذہب کی مزاحمت کے لیے ایجاد کیا۔ فیودر دوستو وسکی یا دوستو ٹفسکی کو دنیا کا سب سے بڑا ناول نگار کہا گیا ہے۔ مگر اس کے چاروں عظیم ناولوں ذلتوں کے مارے لوگ، جرم و سزا، ایڈیٹ اور کراما زوف برادران پر مذہبی فضا اور اخلاقی سوالات کا غلبہ ہے۔ ایڈیٹ پر گفتگو کرتے ہوئے خود دوستو وسکی نے کیا کہا اس کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
’’بڑی مدت سے ایک خیال مجھے ستا رہا ہے۔ مگر میں اسے ناول میں ڈھالتے ڈرتا ہوں۔ کیوں کہ خیال نہایت نازک اور دشوار ہے۔ میں اسے سنبھال نہیں پائوں گا۔ اگرچہ دل اسی میں لگا ہوا ہے اور مجھے بہت پسند ہے۔ آئیڈیا یہ ہے کہ ایک مثالی انسان کی بھرپور تصویر کشی کی جائے۔ اس سے زیادہ دشوار کچھ ہو ہی نہیں سکتا، خصوصاً ہمارے زمانے میں‘‘ (ایڈیٹ۔ ترجمہ ظ انصاری)
ایڈیٹ کا ’’مثالی انسان‘‘ ایک مذہبی تصور ہے۔ ایک مذہبی Idea ہے۔ اس مذہبی خیال کو دوستو وسکی نے اتنے طویل ناول میں سمویا ہے کہ اردو میں اس ناول کا ترجمہ 925 صفحات میں شائع ہوا ہے۔ ناول اگر صرف سیکولر خیالات کے لیے وقف ہوتا تو دوستو وسکی جیسا عظیم ناول نگار شاید مذہبی مواد، خیالات اور کرداروں کو اپنے ناول کا حصہ نہ بناتا۔ دوستو وسکی کا ایک ناول کراما زوف برادران ہے۔ یہ ناول اردو میں 1400 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ناول کا آغاز انجیل کی اس آیت سے ہوتا ہے۔
’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب گیہوں کا دانا زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے مگر جب مر جاتا ہے تو بہت پھل لاتا ہے‘‘۔
(نیا عہد نامہ۔ یوحنا، باب 12، آیت 24)
لیجیے دنیا کے سب سے بڑے ناول نگار کو اتنی تمیز نہیں کہ ناول ایک ’’سیکولر شے‘‘ ہے اور اس کا آغاز کسی آسمانی کتاب کی آیت سے نہیں ہوسکتا۔ ڈی ایچ لارنس مذہبی آدمی نہیں تھا مگر وہ ناول کو سب سے بڑا آرٹ کہتا تھا۔ لارنس کا شمار جدید مغرب کے بڑے ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ایک مضمون میں ناول کو ایٹم بم سے بڑی ایجاد قرار دیا ہے۔ اپنے ایک اور مضمون why The novel matters میں لارنس نے ناول کی دو بنیادی خصوصیات بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زندہ انسان کی زندہ وارداتوں کا بیان ہے۔ دوسری یہ کہ وہ انسان اور زندگی کی کلیت یا wholeness کو بیان کرتا ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
غور کیا جائے تو زندگی کی کلیت کا تصور بھی اپنی اساس میں ایک مذہبی تصور ہے۔ اس لیے کہ سیکولر، لبرل اور جدید انسان تو خانوں اور ٹکڑوں میں بٹا ہوا انسان ہے۔ وہ جزو ہی کو کُل سمجھتا ہے۔ چناں چہ سیکولر آدمی تو زندگی کی کلیت کو بیان ہی نہیں کرسکتا۔ وہ کہے گا جب کوئی خدا، کوئی مذہب اور کوئی روح ہی نہیں ہے تو میں ان چیزوں کو اپنے ناول میں کیوں جگہ دوں؟۔ البتہ ایک مذہبی انسان خیر اور شر اور ایمان اور کفر دونوں کو مانتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ چناں چہ وہ خیر و شر، ایمان اور کفر، روح اور جسم دونوں کا ماجرا بیان کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے۔ چناں چہ ناول اگر واقعتا انسان کی زندگی کی کلیت یا wholeness کا بیان ہے تو ناول اپنی اصل میں ایک مذہبی صنف ادب ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر مذہبی معاشرے کے مذہبی انسان سیکولر اور لبرل ہوجائیں تو ان کی بنیاد پر افسانہ اور ناول لکھنے میں کوئی بُرائی نہیں۔ لیکن اگر سیکولر اور لبرل لوگ اپنے کسی مشاہدے، تجربے یا علم کی وجہ سے مذہبی ہوجائیں تو کہا جائے گا کہ فن پارے میں کوئی تخلیقی جہت نہیں ہے بلکہ یہ منصوبے کے تحت پیدا کیا گیا ادب ہے۔ ناصر عباس نیئر نے عمیرہ احمد پر ایک الزام یہ بھی لگایا ہے کہ انہوں نے ایک منصوبے کے تحت ناول لکھا ہے اور کوئی ’’نئی صداقت‘‘ دریافت کرنے کے بجائے ’’پہلے سے موجود صداقت‘‘ کو دریافت کیا ہے۔ ادب میں مسئلے منصوبے کے ساتھ ادب تخلیق کرنے یا بغیر منصوبے کے ادب تخلیق کرنے کا نہیں ہے۔ ادب میں اہمیت اس بات کی ہے کہ خیال تخلیقی تجربہ بنایا نہیں۔ مولانا روم کی پوری شعری کائنات منصوبہ بند ادب کا حاصل ہے مگر ان سے بڑا شاعر دنیا میں کوئی نہیں۔ سو سیکولر شاعر بھی ایک مولانا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مولانا نے اپنی شاعری میں کوئی ’’نئی صداقت‘‘ بھی دریافت نہیں کی مگر اس کے باوجود ان کا ہر شعر ’’نیا‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ ناصر عباس نیئر کے تبصرے سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ عمیرہ احمد نے شاید کوئی اچھا ناول لکھ ڈالا ہے۔ عمیرہ کا ناول اچھا نہ ہوتا تو ناصر عباس اس پر اتنا طویل مضمون نہ لکھتے۔