کراچی کے مالک کی تلاش……

197

سیالکوٹ میں شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد اسلام آباد کا سفر شروع کیا اور اسلام آباد تک بذریعہ کار ہی گئے۔ پنجاب سرسبز و شاداب نظر آیا موسم بھی اچھا تھا، ہم سندھ اور پنجاب کا موازنہ کرنے لگے خود ہی یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب میں پانی ہے اور سندھ میں کمی اس لیے پنجاب کے کھیت ہرے بھرے تھے۔ شہری علاقوں میں داخل ہوئے تو بھی حیرت انگیز بات محسوس کی کہ پنجاب کے بیشتر شہر سندھ کے مقابلے میں صاف تھے۔ لیکن اتنے بھی نہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں کے قریب اور اندرونی گلیوں اور آبادیوں کا حال بھی یقینا بہت اچھا نہیں تھا۔ اس حوالے سے یاد آیا کہ ایک مرتبہ میٹرو ون ٹی وی پر کسی نے اپنی شامت کے سبب ہمیں مارننگ شو میں بلالیا دوران پروگرام کراچی میں صفائی ستھرائی کا ذکر آیا تو ہم نے کراچی اور لاہور کا موازنہ کردیا کہ لاہور میں بہتری آرہی ہے اور کراچی میں زوال تو اینکرنی نے فوراً سوال کرلیا کہ اس کی وجہ کیا ہے… ہم نے سادہ سا جواب دیا کہ لاہور کے مالک یا اسٹیک ہولڈرز لاہور میں موجود ہیں۔ کراچی کا مالک ٹھیکیدار یا وارث لندن میں ہے۔ ہمارے لیے تو وہ میٹرو کا آخری پروگرام ثابت ہوا… لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب تک کراچی کے اصل مالک کی تلاش ہورہی ہے۔ جو لوگ ٹھیکیدار تھے ان کا چیف غدار ٹھیرا… اب اس کا کوئی متبادل نہیں مل رہا۔ ایک خبر کی سرخی نظر سے گزری جس میں کوئی صاحب کہہ رہے تھے کہ ایم کیو ایم کی بوتل میں الطاف کا جن اب بھی موجود ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے۔ بات تو سلیکٹرز کے موڈ کی ہے۔ وہ پی پی کو غدار بھی کہتے رہے اور اس کی بے نظیر کو ملک میں دو مرتبہ وزیراعظم بھی بنایا۔ آج میاں نواز شریف کو بھارت نواز مودی کا یار کہا جارہا ہے اور بھارت نواز مودی کے یار کو وزیراعظم بنا رکھا ہے۔
بات سیاست کی طرف چلی گئی، پورے ملک میں تعمیراتی اور ترقیاتی کام نظر آیا۔ گوجرانوالہ سے گزرے تو مظہر اقبال رندھاوا یاد آئے لیکن فون نمبر موبائل سے کہیں نکل گیا ورنہ چڑے کھانے کی فرمائش ضرور کرتے۔ جو انہوں نے آج تک نہیں کھلائے۔ 15 برس قبل بھی گوجرانوالہ میں ترقیاتی کام ہورہے تھے اب بھی ہوتے نظر آئے۔ ہاں بائی پاس روڈ مکمل سی ہوگئی ہے۔
اسلام آباد پہنچے تو ایک دھن سوار تھی کہ اسلام آباد میں پلاسٹک کی تھیلیاں ختم ہونے کے اثرات دیکھے جائیں۔ غور کیا تو بہت واضح فرق نظر آیا، کچرے میں ہمیں پلاسٹک کی تھیلیاں نظر نہیں آئیں۔ ان تھیلیوں کا متبادل نظر آیا۔ ہوٹل والے بڑی مشکلوں سے وہ تھیلی دے رہے تھے اس کے بارے میں واٹس اپ پر کئی ماہ قبل دیکھا تھا کہ پانی کے گلاس میں ڈالنے سے وہ تھیلی گھل جاتی ہے۔ لیکن کراچی کمپنی کے ایک دکاندار سے اس کا ذکر کرنا غضب ہوگیا وہ اس قدر غصے میں تھے کہ دکانداری بھول کر گویا ہوئے کہ سب فراڈیے ہیں۔ سی ڈی اے اور ماحولیات والے آئے تھے تو ہم نے ان کی فراہم کردہ تھیلیاں فوارے کے نیچے پانی میں ڈال دیں۔ گھنٹہ بھر حلیم کی طرح چلاتے رہے ایک تھیلی بھی نہیں گھلی۔ لیکن حکام کہہ کر چلے گئے کہ کچھ بھی ہو یہی تھیلیاں استعمال ہوں گی۔ خیر ہمیں کیا ہم کیوں ان تھیلیوں کے غم میں گھلیں… کہانی وہی ہے یعنی اب تھیلیاں مخصوص کمپنی بنائے گی اسی سے لینی پڑیں گی… اور کوئی دوسرا اب تک ایسی تھیلیاں بنانے کا مجاز نہیں ہے۔
اسلام آباد کو چھوڑ کر پھر تیزگام میں بیٹھ گئے اب ریلوے ٹریک کے دونوں طرف شہروں کا حال دیکھا وہی کچرا نظر آیا جو کراچی میں نظر آتا ہے۔ البتہ اندرون شہر کچھ بہتری تھی، لاہور سے گزر ہوا تو بارش جاری تھی اور عملاً گھٹنوں تک پانی کھڑا تھا۔ ویگنوں کے ٹائر تک ڈوبے ہوئے تھے، لیکن ایک حیرت انگیز بات دیکھنے میں آئی کہ بجلی بند نہیں ہوئی تھی اور لوگ پانی میں سے گزر کر جارہے تھے۔ کھمبوں پر یہ ہدایت ضرور لکھی تھی کہ بارش کے دوران بجلی کے کھمبوں کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں… لیکن شاید لاہور میں کے الیکٹرک نہیں تھی اس لیے لوگ کرنٹ لگنے سے نہیں مرے، دیوار اور چھت گرنے سے مرگئے… ایسا لگ رہا تھا کہ آج کل لاہور کا بھی کوئی مالک نہیں ہے۔ لیکن یہ اندازہ ہوا کہ پورے ملک میں اختیارات اور فنڈز مسئلہ نہیں بلکہ بے حسی مسئلہ ہے۔ اب تمام منتخب نمائندوں کو بھی پتا چل چکا ہے کہ سلیکٹرز کے کندھوں پر سوار ہو کر جب چاہیں گے آجائیں گے، ووٹوں کی کیا ضرورت ہے… تو پھر نام کو بھی کام کیوں کریں۔ کراچی آنے سے قبل دھواں دھار بارش اور گٹر ابلنے کی خبروں نے ہولناک منظرکشی کر رکھی تھی خوف تھا کہ سڑکوں پر صرف گٹر والا کالا پانی ملے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ یہاں کچرا سیاست کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں سے زیادہ کام ہورہا ہے۔ بلدیہ بھی کام میں مصروف ہے اور سندھ حکومت بھی اور وفاقی حکومت کے پیٹ میں بھی کراچی کا بہت درد ہے۔ خدا تینوں کو کامیاب کرے۔
اسلام آباد سے ایک سفر شوگران کا بھی کیا۔ وہاں بہترین موسم کے مزے لیئے۔ پیٹ کی خرابی کے خوف سے چکن پکوڑوں سے پرہیز کیا۔ سری اور پائے بھی دیکھے… یہ دونوں دیکھنے کے مقام ہیں کھانے کے نہیں۔ خطرناک راستوں سے گزرتے ہوئے یہاں پہنچے لیکن اس سفر کے مزے لینے کے ساتھ ساتھ الخدمت کراچی کے جوانوں کا کارنامہ بھی نظروں سے گزرا… یقینا کوئی دھن کا پکا متوالا تھا۔ راستے بھر خدائے بزرگ و برتر کے اسمائے کرام پر مشتمل بورڈز درختوں پر نصب تھے۔ سوناموں پر مشتمل ٹین کے چھوٹے چھوٹے بورڈز درختوں میں لگانا بھی چند گھنٹوں کا کام نہیں تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ کام کئی دن قیام کے دوران کیا گیا ہے۔ ایسے خطرناک سفر میں خدا کی یاد آہی جاتی ہے۔ اسی بہانے نظروں کے سامنے اسمائے حسنیٰ باترجمہ موجود ہوں تو زبان پر آہی جاتے ہیں۔ یہ کام کرنے والے دنیا اور آخرت میں اجر کے مستحق ہیں۔