۔19ستمبر 1996 کو کابل پر طالبان نے تسلط قائم کرلیا۔ شمال میں قندوز اور اگست 1998میں مزار اپنے تصرف میں لے لیے گئے تھے۔ تخار، بغلان اور بامیان اپنے قلم رو میں شامل کر لیا۔ اس دوران انہیں انتہائی سخت لمحات و آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ شمال کے اندر تحریک کو جنرل عبدالمالک کی طرف سے وعدہ خلافی کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان کی مدد ہی سے جنرل مالک کو اپنے دشمن رشید دوستم پر برتری حاصل ہوئی۔ دوستم بھاک کر ترکی پہنچ گیا۔ جنرل عبدالمالک ایک مدت رشید دوستم کی تنظیم میں اہم عہدے پر تعینات تھے۔ رشید دوستم نے ان کے بھائی رسول پہلوان کو قتل کر دیا۔ جس کے بعد اس نے اپنا مسلح جتھا بنا لیا۔ کابل طالبان کے ہاتھ میں تھا اور ان کی سعی اور مقصد شمال کے علاقوں کو ریاست اور ایک نظا م کے تحت لانا تھا۔ اس خاطر جنرل مالک اور طالبان کے درمیان مئی 1997ء میں ہونے والے تحریری معاہدے کے تحت طالبان مالک کے زیر کنٹرول علاقوں فاریاب، شبرغان، سرپل، مزار اور سمنگان میں داخل ہو گئے۔ مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی ملا محمد غوث اور ملا عبد الرزاق نے کی تھی۔ معاہدے میں طے پایا کہ جنرل مالک اور ان کے نامزد افراد کو حکومت میں نمائندگی دی جائے گی۔ اس عہد کو نبھانے میں طالبان سچائی کے ساتھ کھڑے تھے۔ لیکن یہ معاہدہ ایک جنگی چال تھا۔ جس کا مقصد طالبان عساکر کو محصور کرکے اجتماعی طور پر فنا کے گھاٹ اُتارنا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا، کنٹینروں میں طالبان ٹھونس کر تپتی دھوپ میں چھوڑے جاتے اور وہ سسک سسک کر مرتے۔ ان کے سر تن سے جدا کرتے، گلے کاٹے جاتے، پیٹرول ڈال کر آگ جلائی جاتی۔ خون اور تیل کے ملاپ سے شعلہ بلند ہوتا۔ اچھلتی تڑپتی لاشوں کو دیکھ کر یہ وحشی محظوظ ہوتے۔ اس انسانیت سوز سلوک کو کو رقص بسمل کہتے۔ لاشیں کنوئوں، کھائیوں، کھلے میدانوں میں پھینکی جاتیں اور گڑھے کھود کو اجتماعی طور پر دفنائی جاتیں۔ یہ صرف جنرل مالک کا قصہ نہیں رشید دوستم، احمد شاہ مسعود اور دوسرے کمانڈر ہاتھ آئے طالبان سے انسانیت سے عاری اور وحشت کا سلوک کرتے۔ انہیں اجتماعی طور قتل کرتے۔ قید خانوں میں تشدد، بھوک، پیاس اور بیماریوں سے مرتے۔
جب طالبان عساکر اور دوسرے نمائندے اُن علاقوں میں گئے تو جنرل مالک برابر ملا محمد عمر مجاہد اور دوسرے سرکردہ طالبان رہنمائوں کی آمد کا اصرار کرتے۔ منصوبہ بندی اعلیٰ قیادت کو بھی ہلاک کرنے کی تھی۔ مردم کشی کی یہ ساری منصوبہ بندی حزب وحدت اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر کی گئی تھی۔ گھیر نے کے بعد سفاک جنگجوئوں نے قتل عام شروع کردیا اور تیرہ ہزار دو سو طالبان فنا کے گھاٹ اُتار دیے۔ جن میں محض ایک ہزار مسلح تھے۔ یہ روح فرسا واقعات مزار شریف، شبر غان اور میمنہ میں پیش آئے۔ بعد میں ایران نے مالک اور دوستم کے درمیان صلح کرادی۔ دشت لیلیٰ اور حیرتان سمیت اس ہولناک عمل پر پوری دنیا چیخ اُٹھی۔ مختلف ممالک اور باضمیر حلقوں نے عالمی اداروں سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اور بہت سارے بے ضمیر حلقے طالبان کے بغض میں خاموش رہے۔ انہی دنوں جنرل مالک سرکاری دور ے پر امریکا گئے۔ جن کی وہاں بڑی خاطر مدارات ہوئی۔ طالبان کے بڑے رہنما مالک کی قید میں تھے۔ چناںچہ طالبان اب جنگ کی تیاری کے ساتھ بڑھے۔ تو جنرل مالک ایران کو فرار ہوا۔ جاتے ہوئے ملا اختر منصور، جنرل (پائلٹ) جیلانی خان نورزئی، ملا محمد صادق، حاجی فضل محمد اور ملا عبدالزاق کو باد غیس کے مقام پر چھوڑ دیا۔ روسی فوجیں افغانستان سے نکل تو گئیں مگر ان کا مالی، تیکنیکی اور اسلحی تعاون شمال کی قوتوں کو حاصل تھا۔ ماہرین پنج شیر بھیجے جاتے۔ احمد شاہ مسعود نے روسی فوج کے خلاف جہاد کے وقت ہی بہروپ اپنا رکھا تھا، 1982ء ہی میں روسیوں سے ساز باز کر رکھی تھی۔ ان کے لوگ کابل اور روسی فوج کے ساتھ مل کر مجاہدین خاص کر حزب اسلامی کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے۔ اعلیٰ روسی انٹیلی جنس و فوجی حکام لکھ و کہہ چکے ہیں کہ ان کی مسعود کے ساتھ جہاد کے دوران روبرو ملاقاتیں ہوئیں اور وہ افغانستان میں روسی نفوذ کا محرک تھا۔ وہ اور روسی مل کر منصوبہ بندی و فیصلے کرتے۔ اور احمد شاہ اکثر وہ کرتا جو اْسے روسی حکومتی و فوجی حکام کہتے۔ غرض ایران بھی شمال کی قوتوں کی اس نوع کی مدد کرتا رہا۔ یعنی روس سمیت ایران کے جنگی مشیر بھی آتے جاتے۔ امریکی مخاصمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ طالبان حکومت کے خلاف عالمی سطح پر یکطرفہ و گمراہ گن پروپیگنڈے شروع کیے گئے۔
افغانستان کے ایک غالب حصے پر مثالی امن کے قیام اور فتح کابل اور مزار کے بعد پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کی حکومت تسلیم کر لی۔ ترکمانستان نے اچھے تعلقات کا تاثر دیا۔ روس، امریکا اور ایران نے طالبان کی حکومت کو خطے کے لیے خطرہ قرار دیا۔ دنیا کی مخالفت کے باوجود طالبان کی حکومت اپنے مثبت و وسیع مقصد سے پیچھے نہ ہٹی۔ ان کی نگاہ پنج شیر اور شمال کے دوسرے علاقوں پر تھی۔ جو ابھی تک کابل حکومت کی دسترس میں نہ تھے۔ شمال کی قوتیں مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات ابھارتی رہیں۔ وہاں کے سادہ لوح، غریب اور امن کے خواہاں عوام کو اس پروپیگنڈے کے ذریعے خوف و وسوسوں میں مبتلا کیے رکھا کہ اگر طالبان آتے ہیں تو ان کے ساتھ انسا نیت سوز سلوک روا رکھیں گے۔ ایران، روس، بھارت اور فرانس کی مدد کی وجہ سے طالبان پنج شیر نہ پہنچ سکے۔ کابل میں ایرانی سفارتخانہ اب بھی طالبان مخالف بیانیے پر کام کرتا رہا۔ بار بار توجہ دلانے کے باوجود ایران اپنی روش سے نہ ہٹا۔ طالبان کی حکومت نے تہران میں اپنے سفیر کی تعیناتی کا قانونی مطالبہ کیا۔ جسے ایران نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ مجبوراً طالبان کو کابل میں ایرانی سفارت خانہ بند کرنے اور سفیر کے نکل جانے کا حکم دینا پڑا۔ اس اقدام سے کسی حد تک ایران کی ریشہ دوانیاں کم ہوئیں۔
شوریٰ نظار، جمعیت اسلامی، رشید دوستم کی جُنبش ملی اور حزب وحدت نے مذکورہ ممالک کے تعاون سے شمال کے نام سے اتحاد قائم کر رکھا تھا۔ مسلکی اور لسانی تعصبات کے غلیظ ہتھیار مقصد کے لیے استعمال کیے جاتے۔ 14اکتوبر 1996ء کو ایک اجلاس ہوا جس میں جمعیت اسلامی، جنبش ملی (رشید دوستم) حزب وحدت کے نمائندے شریک ہوئے۔ جس میں طالبان حکومت کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کا عہد کیا گیا اور اپنی الگ حکومت کا اعلان کیا گیا۔ برہان الدین ربانی تب رشید دوستم کی پناہ میں تھے، اس حکومت کے صدر بنے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو بھی تعاون کرنے اور حکومت میں شمولیت کا کہا گیا۔ لیکن گلبدین حکمت یار نے انکار کر دیا۔ غالبا ً یہ لوگ حکمت یار کو وزیر اعظم کا عہدہ دینا چاہتے تھے۔ گلبدین حکمت یار نے الگ حکومت کے اعلان پر تنقید کی۔ ان پر واضح کردیا حزب اسلامی سیاسی گفت و شنید کے ذریعے مسائل کے حل پر یقین رکھتی ہے۔ اور کہا کہ ان کی جماعت کابل حکومت یعنی طالبان کے خلاف الگ حکومت بنانے کی حمایت نہیں کرتی۔ شمالی اتحاد نے عبدالرحیم غفور زئی کو اس برائے نام حکومت کا وزیر اعظم مقرر کیا۔ عبدالرحیم غفور زئی سابق شاہ ظاہر شاہ اور ببر ک کارمل کی حکومتوں میں اہم عہدوں پرکام کر چکے تھے۔ جس کے بعد انہوں نے روس کے خلاف افغان مجاہدین کی حمایت کی تھی۔ مزار کا سقوط ہوا تو ربانی کی حکومت صوبہ تخار کے مرکز تالقان منتقل ہو گئی۔ تخار کابل کے تصرف میں آیا تو ربانی کی حکومت بدخشاں لے جائی گئی۔ گو یا اس بے زمین و بے حیثیت اور تعصب پر مبنی حکومت کو اقوام متحدہ میں نمائند گی حاصل تھی۔ اور کئی ملکوں میں اس کے سفیر تعینات تھے۔ اس ٹولے کو سیاسی و سفارتی فوائد حاصل تھے۔ دنیا اس طرح حقائق سے دانستہ منہ موڑے ہوئی تھی۔ دراصل اقوام متحدہ امریکا، روس اور ایران سمیت دنیا کے دوسرے ممالک کی بغض و عناد پر مبنی پالیساں تھیں کہ جنہوں نے ایک طاقتور حکومت سے بنانے کے بجائے بگاڑ کا رویہ، سلوک اور پالیسی اپنا رکھی تھی۔ دراصل افغانستان کے مسائل کے ذمے دار یہی رویے ہیں۔ طالبان حکومت سے معاندانہ کے بجائے اچھے تعلقات استوار کیے جاتے تو یقینا حالات موجودہ ڈگر پر نہ ہوتے۔ شمال کے مسلح گروہ مسائل کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ ان کے بڑے تیس مار خان فرار ہو گئے تھے۔
( جاری ہے )