طالبان نے اپنی اصلاحی تحریک کے آغاز ہی میں فرد کی اصلاح، معاشرے کی اصلاح اور اداروں اور نظام کی اصلاح کو نصب العین بنایا۔ اور ان پہلوئوں پر من حیث ا لجماعت و حکومت عمل پیرا ہوئے۔ ان کی حکومت کے لیے بیرونی دنیا سے مسائل پیدا کیے جاتے۔ مزار میں قائم ایرانی قونصل خانے کے دس اہلکار اور ایک ایرانی صحافی لاپتا ہوگئے۔ یہ واقعہ فتح مزار کے رو ز ہی پیش آیا۔ ایران نے الزام طالبان پر عائد کیا۔ حالانکہ طالبان ایران سے تحقیقات اور تفتیش کے ضمن میں ہر ممکن تعاون پر آمادہ تھے۔ اور بڑے اعتماد سے یہ الزام مسترد کر دیا۔ ملا محمد عمر نے ذاتی طور پر دلچسپی لی۔ اور حکم دیا کہ ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے میں کسی قسم کا تساہل کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غصہ میں یہاں تک کہا کہ قاتل اگر ہاتھ آتے ہیں تو بغیر کسی عدالتی عمل کے دار پر لٹکائے جائیں۔ بعد ازاں طالبان نے لاشیں برآمد کر لیں اور ایران کے حوالے کر دیں۔ لیکن ایران اپنے الزام اور دعوے پر قائم رہا۔ تہران کے اندر اس واقعہ کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین نے افغان مہاجرین پر حملے بھی شروع کر دیے۔ ان کے گھروں میں گھس گئے۔ تیرہ افغان افراد چوراہے پر لا کر سر عام پتھر مار کر قتل کر دیے گئے۔ قاتلوں کے خلاف ایران کی حکومت نے کوئی کاروائی نہ کی۔ مزار میں ایرانی قونصل خانہ وہاں کی سیاست میں پوری طرح دخیل تھا۔ طالبان تحقیق کے مطابق ایرانی قونصل خانے کے اہلکاروں کا قتل شمال کے لوگوں نے کیا تھا، جن سے بھاری رقم چھین لی گئی تھی تاکہ الزام طالبان پر عائد ہو اور ایران طالبان کے خلاف مہم جوئی کرے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تصادم کی صورت پیدا ہوگئی۔ ایران نے اپنی فوجیں نمروز اور ہرات سے متصل سرحدوں پر پہنچا دیں۔ ان کے جنکی طیارے اور ہیلی کاپٹر افغان حدود میں پرواز کرتے۔ چناں چہ مجبوراً طالبان نے بھی ممکنہ حملے
کے جواب کی تیاری کرلی۔ ان کشیدہ حالات میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی افغانستان گئے ان کے ساتھ اسلامی کانفرنس کے سربراہ ابراہیم بکر بھی تھے۔ ملا عمر نے انہیں ایرانی قونصل خانے کے اہلکاروں کے قتل کے واقعہ سے متعلق تحقیقات سے آگاہ کردیا۔ اور انہیں ان علاقوں کا دورہ بھی کرایا جہاں ہزاروں طالبان محاصرے کے بعد قتل کیے گئے تھے۔ ان رہنمائوں نے اپنے دورے اور ملا عمر سے ملاقات کو اہم پیش رفت قرار دیا۔
غرض طالبان کی حکومت داخلی بہتری پر اپنے ویژن اور دستیاب وسائل کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ بلا شبہ انہیں نمایاں کامیابیاں ملیں۔ افغانستان کے اندر پھیلے فساد کو ختم کرنا ہمالیہ سر کرنے کے مترادف تھا۔ جو ان درویشوں نے کر دکھایا، ملک میں انارکی نہ رہی۔ طوائف الملوکی کے بجائے ملک ایک نظام اور وفاق کے تحت آیا۔ سرحدوں کا تحفظ یقینی ہوا۔ شمال کے اندر ہونے والی ملک کی تقسیم کی سازشو ں کا سد باب کیا۔ افغانستان کی خود مختاری مسلمہ بن گئی۔ مروجہ نظام اور قوانین کے تحت عوام کو انصاف کی فراہمی ہونے لگی۔ سرکاری اداروں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری آتی رہی۔ قومی شاہراہوں کی مرمت اور تعمیر کے منصوبوں پر کام جاری رہا۔ دنیا کے پروپیگنڈے کے برعکس مدارس اور اسکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تعلیمی اداروں کو فعال بنانے پر تدریجاً کام شروع کیا۔ پندرہ برس سے بند کابل کی سرکاری جامعہ میں 1997ء میں درس و تدریس کا عمل دوبارہ شروع کیا گیا۔ جہاں 1999 میں خواتین کی کلاسوں کا اہتمام بھی کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق قندھار، ہرات اور جلال آباد میں خواتین کے نرسنگ اسکول کھولے گئے۔ اٹھارہ مارچ 2000 کو پورے افغانستان میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس مناسبت سے کابل کے اندر ہونے والی تقریب میں سات سو خواتین شریک ہوئیں۔ تقریب میں یونیورسٹی، کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ، ڈاکٹرز نرسیں اور طلبہ شامل ہوئے۔ موجودہ افغانستان کے کرنسی نوٹ بھی ان کی حکومت میں ہی ڈیزائن ہوئے جو حامد کرزئی کے دور میں چھپنا شروع ہوئے۔ امارات اسلامیہ کی خود مختار اور آزادانہ پالیسیوں کی ایک تابندہ مثال ترکستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن (تاپی) منصوبے کا معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ ملک کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔ امارات اسلامیہ پوری دنیا سے خود کو جوڑنے کی مساعی سے ایک لمحہ بھی غافل نہ رہی۔ اپنی حکومت کے اوائل میں تیل کی سیاست اور اس کی اہمیت سے خود کو آگاہ کیا۔ ارجنٹائن کی تیل کی کمپنی (بریداس) نے ان کی اس ضمن میں پوری رہنمائی کی۔ اسی کمپنی نے امارت اسلامیہ کو تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ قابل عمل بنانے کی تجویز پیش کی۔ طالبان نے یہ پیش کش فوری قبول کر لی۔ اور دنیا کی دوسری بڑی مالیاتی کمپنیوں سے بھی روابط قائم کر لیے۔
امریکا کو ’’تاپی‘‘ گیس پائپ لائن منصوبے میں طالبان کی دلچسپی پسند نہ تھی۔ جو امریکی تیل کی کمپنی (یونوکال) کے لیے راہ ہموار کر رہا تھا۔ اس کمپنی کو امریکی محکمہ خارجہ کی حمایت حاصل تھی۔ طالبان کی حکومت میں ان دونوں کمپنیوں کے دفاتر کے دورے کیے اور اپنے اور اپنے ملک کے لیے ارجنٹائن کی کمپنی سے معاہدہ بہتر اور موزوں گردانا کیوں کہ اس کمپنی کے سامنے طالبان نے اسکول، مدارس اسپتال کے قیام پینے کے پانی کے منصوبوں، بجلی اور ٹیلی فون لائن بچھانے سمیت ملک و عوام کے مفاد کے کئی مطالبات رکھے جو تسلیم کر لیے گئے تھے۔ اور ساٹھ ہزار افغان باشندے برسر روزرگار ہو جاتے۔ ترکمانستان کی حکومت نے امریکی دبائو کے تحت بریداس سے معاہدہ ختم کیا اور اس کی تجدید یونوکال کے ساتھ کرلی۔ اور پاکستان کو بھی اپنی کمپنی کے حق میں قائل کر لیا تھا۔ اگست 1998ء کو افغانستان پر کروز میزائل حملوں کے بعد امریکی کمپنی نے اپنے دفاتر افغانستان میں بند کرنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح گیس پائپ لائن منصوبہ امریکی دھونس اور مفاد کی وجہ سے التواء کی نظر ہوا۔ امریکا نے افغانستان میں شاطرانہ کھیل شروع کر دیا۔ خفی طور پر طالبان مخالف سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو اپنی اسکیم میں شامل کیا۔ حزب اسلامی افغانستان اور حرکت انقلاب اسلامی افغانستان کے ما سوا، برہان الدین ربانی کی جمعیت اسلامی، احمد شاہ مسعود کی شوریٰ نظار، عبد الرب رسول سیاف کی اتحاد اسلامی، پیر گیلانی کی محاذ ملی، صبغت اللہ مجددی کی نجات ملی، حزب وحدت اسلامی، رشید دوستم کا گلیم جم ملیشیا دوسری جہادی و کمیونسٹ دور کی شخصیات امریکی سیاست اور تخریب کا حصہ بن گئیں۔ کئی لوگ امریکا گئے، ان کی وہاں تربیت ہوئی۔ شمال کے کمانڈر اور سیاسی لوگ پہلے ہی ان طاقتوں کے بغل بچہ تھے۔ ایران اس کھیل کا اہم حصہ تھا۔ پاکستان کے پشتون قوم پرست حلقے امریکا کی افغان گیم کا حصہ بن گئے۔ مختلف ملکوں اسی طرح پاکستان کے شہروں کوئٹہ اور پشاور میں مقیم سابق کمیونسٹ اور جہادی تنظیموں کے بعض نمایاں لوگ اور امریکی سی آئی اے کے درمیان خفیہ ملاقاتیں بڑھ گئیں۔ یعنی طالبان حکومت گرانے کی صورت گری پر کام شروع ہوا۔
(جاری ہے)