دھرنے کی دھڑ دھڑ

242

جب سے نیا سیٹ اپ لایا گیا ہے اپوزیشن کی وہی حالت ہے جو غالب کی دلّی میں ان دنوں اردو کی ہے۔ غالب بہادر شاہ ظفر کے مصاحب تھے۔ پاکستان میں حکومتیں جی ایچ کیو کی ہم صحبت رہتی ہیں۔ نواب جان کے دل میں غالب کی محبت کی وجہ سے کو توال شہر ان کے درپے ہو گیا تھا یہاںکوئی حکو مت کی طرف دیکھے نیب اس کی دشمن ہوجاتی ہے۔ غم عشق اور غم روزگار دونوں کو چھوڑ کر پھر عدالتوں کے چکر ہوتے ہیں اور حیرت سے عدالتوں کو دیکھتا انصاف۔ عمران خان کی بطور وزیراعظم تعیناتی کے بعد ایسا ہی چل رہا تھا اور ایسا ہی چلتا رہتا مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بیچ میں آگیا۔
قیام پاکستان کے وقت جو تجزیے کیے گئے ان میں بیش تر پاکستان کے روشن مستقبل کی امید وں سے عبارت تھے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان تضادات کا کم شکار تھا۔ اہل پاکستان کے درمیان یک جہتی کو پروان چڑھانے والے عناصر بھی بھارت کے مقابلے میں کہیں زیاد ہ تھے۔ اندرون ملک ہی نہیں پاکستانیوں نے بیرون ملک بھی جس شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ پاکستانیوں کی ذہانت اور ہوشیاری نے دنیا سے داد سمیٹی۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے اس پر ایک لطیفہ سن لیجیے:
ایک صبح صدر ٹرمپ سرکاری میٹنگ میں شرکت کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک غریب سیاہ فام امریکن عورت slush (بچوں کا مشروب) بیچ رہی تھی۔ صدر ٹرمپ کو اپنا بچپن یاد آگیا۔ انہوں نے ایک ڈالر عورت کی طرف بڑھاتے ہوئے سلش دینے کو کہا۔ سلش کا گلاس صدر ٹرمپ کی طرف بڑھاتے ہوئے غریب عورت کا ہاتھ پھسل گیا۔ شربت صدر ٹرمپ کی شرٹ پر گر گیا۔ ٹرمپ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے چلاتے ہوئے کہا ’’نامراد عورت تیری وجہ سے میری اتنی قیمتی شرٹ کا ستیاناس ہوگیا۔ مجھے اس شرٹ کی قیمت اداکرو ورنہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں‘‘۔ غریب عورت معافیاں ما نگتی رہی لیکن ٹرمپ ایک ہی بات کی تکرار کرتا رہا ’’مجھے شرٹ کی قیمت ادا کرو‘‘۔ نیگرو عورت نے روتے ہوئے کہا ’’کتنے کی ہے آپ کی شرٹ‘‘۔ ’’ایک ہزار ڈالر‘‘۔ ٹرمپ نے جواب دیا۔ شرٹ کی قیمت سن کر غریب عورت نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا ’’اتنے پیسے تو نہیں ہیں میرے پاس۔ میں کہاں سے ادا کروںگی۔ پلیز مجھ پر رحم کرو‘‘۔ عورت کی لجاجت سے ٹرمپ کے اندر کا وحشی ریسلر باہر آگیا۔ اس نے دولت اور طاقت کے نشے میں بد مست ہو کر کہا ’’مجھے نہیں پتا۔ کچھ بھی کرو قیمت اداکرو ورنہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں‘‘۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور سامنے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ قریب آیا اور عورت سے پوچھا کیا ماجرا ہے۔ عورت نے روتے ہوئے کہا ’’ذرا سی غلطی کا ٹرمپ مجھ سے ایک ہزار ڈالر طلب کررہا ہے۔ میں کہاں سے دوں۔ ایک ہزار ڈالر تو میں مہینے میں کماتی بھی نہیں ہوں‘‘۔ ڈرائیور نے عورت کو دلاسا دیا اور ٹرمپ سے مخاطب ہو کر کہا ’’اس غریب عورت کو چھوڑ دو۔ میں تمہیں ایک ہزار ڈالر دیتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر ٹیکسی ڈرائیور نے جیب سے ایک ہزار ڈالر نکالے اور ٹرمپ کے منہ پر دے مارے۔ ٹرمپ نے خوشی خوشی پیسے لیے۔ گاڑی میں بیٹھ کر چلنے لگاتو ٹیکسی ڈرائیور بولا ’’صدر صاحب ہزار ڈالر آپ نے مجھ سے کس چیز کے لیے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ نے کہا ’’اس شرٹ کے‘‘ ۔ٹیکسی ڈرائیور نے کہا ’’تو پھر شرٹ تو مجھے دیتے جائیں‘‘۔ صدر ٹرمپ نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا ’’تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے اگر شرٹ تم کو دے دی تو کیا میں میٹنگ میں ننگا جائوں گا‘‘۔ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا ’’ننگے جائو یا جیسے بھی جائو مجھے پروا نہیں۔ تم نے شرٹ فروخت کی، میں نے قیمت ادا کردی۔ اب یہ شرٹ میری ہے۔ مجھے اپنی شرٹ چاہیے‘‘۔ صدر ٹرمپ نے بے بسی سے کہا ’’میں شرٹ کیسے اتار سکتا ہوں‘‘۔ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا ’’تو پھر یہ شرٹ مجھ سے خریدلو‘‘۔ ٹرمپ نے حیرت سے کہا ’’تم مجھے یہ شرٹ کتنے کی بیچو گے‘‘۔ ’’پانچ ہزار ڈالر‘‘ ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’پانچ ہزار ڈالر‘‘۔ صدر ٹرمپ نے چیختے ہوئے کہا ’’پانچ ہزار ڈالر، نہ ایک ڈالرکم نہ زیادہ۔ جلدی کیجیے مجھے اور بھی کام ہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں‘‘۔ صدر ٹرمپ نے چاروں طرف دیکھا لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ انہوں نے مجبوراً ڈرائیور کو پیسے ادا کیے اور چل دیے۔ ڈرائیور نے ایک ہزار ڈالر اپنی جیب میں رکھے اور باقی غریب نیگرو عورت کی طرف بڑھادیے۔ عورت نے حیرت سے پوچھا ’’تم کون ہو‘‘۔ ’’ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور‘‘۔ اس شخص نے اپنی ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
دنیا پاکستانیوں کی صلاحیتوں کی معترف ہے لیکن پاکستان میں ہر حکومت ان کی صلاحیتوں کو کچل رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے اس بربادی میں جس تندہی کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آسمانوں کے عقاب بھی اس بے رحمی سے لوگوں کی بوٹیاں نہ نوچتے۔ آج سماج کا ہر طبقہ حکومت سے نالاں ہے۔ نفرت کا وہ سفر جو حکومتیں پوری انتخابی مدت میں طے کرتی ہیں موجودہ حکومت نے سوا سال میں طے کرلیا۔ لاکھوں کروڑوں نوکریوں اور گھروں کے دعوے لنگر خانوں پر آکر دم توڑ گئے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے جس بے دردی سے کھیل کھیلا گیا ہے آئے دن اس کے شواہد سامنے آتے رہتے ہیں۔ جج ارشد ملک کی گفتگو کی ریکارڈنگ، اس پر عدالت عظمیٰ کا حیرت انگیز فیصلہ ہی ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے انٹرویو نے ثابت کردیا ہے کہ نواز شریف کے جیل جانے کی وجہ کرپشن نہیں بلکہ سخت موقف ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اختیار کیا تھا۔ انہوں نے کہا اگر نواز شریف اپنے اردگرد تین چار لوگوں کی باتوں میں نہ آتے اور صلح صفائی کا رویہ رکھتے تو چوتھی بار وزیراعظم بن جاتے۔ اس انٹرویو سے ایک بات اور ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے اصل چیز اطاعت اور فرمانبراداری ہے۔ عوام کے ووٹ نہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا متوقع دھرنا عمران خان کی حکومت سے نالاں عوام کے دل کی آواز اور احتجاج ہے۔ یہ دھرنا مولانا کی انفرادی محنت کا نتیجہ ہے۔ جیلوں میں قید پی پی اور ن لیگ کی قیادت حیرت انگیز طور پر اس احتجاج میں شمولیت کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس معاملے میں شہباز شریف کا کردار انتہائی منفی تھا۔ جب سے نواز شریف گردش میں آئے ہیں شہباز شریف کا کردار پر اسرار، پیچیدہ اور نا سمجھ میں آنے والا ہے۔ نواز شریف غالباً اس کردار کو سمجھ رہے اس لیے شہباز شریف کی مخالفت کے باوجود انہوں نے دھرنے میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ پی پی تاحال دھرنے سے گریزاں ہے لیکن عمران خان کی کوششیں جاری رہیں تو وہ بھی دھرنے میں شامل ہونے پر مجبور ہوگی۔ اڈیالہ جیل میں اپنے والد آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد بلاول نے پیپلز پارٹی کی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔ آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے تک احتیاط سے قدم اٹھانا ہوگا۔ وہ اس بات کی وضاحت نہیں کرتے۔ کئی ماہ پہلے ایک انٹرویوں میں بھی وہ ایسی ہی بات کرچکے ہیں۔ یہ ایک معنی خیز اشارہ ہے۔
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کی کامیابی کے امکانات ہر جگہ موضوع بحث ہیں۔ حکومت بڑی خاموشی سے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ مولانا کے مقابل مولانا طارق جمیل کو ایک سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں اتارا گیا ہے۔ وفاق المدارس بھی عمران خان حکومت سے قریب ہے۔ یہ تمام کوششیں بجا لیکن مولانا فضل الرحمن ایک زیرک سیاست دان اور اس سسٹم کے کل پرزوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر مولانا معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے گئے تب بھی اسٹیبلشمنٹ کو اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا لیکن عمران خان کی حکومت کو وہ آشیرباد حاصل رہے گی اور نہ ہی سیاست کی وہ صورت باقی رہے گی جو آج ہے۔