صفائی مہم اور میئر کا دورہ

180

 سنا ہے کہ حکومت سندھ کی طرف سے کراچی کو صاف کرنے کے لیے صفائی مہم جاری ہے۔ دنیا بھر میں صفائی ستھرائی کی بنیادی ذمے داری تو بلدیاتی اداروں کی ہوا کرتی ہے لیکن سندھ حکومت نے یہ کام بھی براہ راست اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے 2015 میں سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا دیا۔ اب چار سال بعد اس ادارے کو ایک ناکارہ قرار دیے گئے سی ایس پی افسر کار آمد بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے نئے ایم ڈی آصف اکرام کی محنت اور دیانت داری سے خدمات انجام دینے کی عادت سے یقین ہے کہ شہر کے وہ علاقے جو ایس ایس ڈبلیو ایم بی کی حدود میں آتے ہیں مکمل طور پر صاف ہوں یا نہ ہوں مگر صاف جیسے ہوجائیں گے۔ رواں صفائی مہم کے دوران تو ترجیحی بنیاد پر شہر کے مختلف مقامات سے لاکھوں ٹن کچرے کو اٹھایا جارہا ہے۔ کراچی میں روزانہ تقریباً 14 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ایس ایس ڈبلیو ایم بی، بلدیہ کورنگی، وسطی اور غربی یومیہ صرف زیادہ سے زیادہ ساڑھے چھ ہزار ٹن کچرا اٹھا کر ٹھکانے لگا پارہی ہے۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی صفائی مہم کے دوران لاکھوں ٹن بچے ہوئے کچرے سے یومیہ سیکڑوں ٹن کچرا ہی اٹھا پارہی ہے۔
کراچی میں گندگی غلاظت کو صاف کرنے کی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی نہیں ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ میں سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کا محکمہ موجود ہے۔ بلدیہ کراچی کی بجٹ دستاویزات کے مطابق سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیوں، انسیریشن پلانٹ اور لینڈ فل سائٹس کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے 27 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ اس شعبے کے افسران سمیت 154 افراد پر مشتمل عملے پر بلدیہ کراچی سالانہ 11 کروڑ 17 لاکھ 94 ہزار روپے خرچ کرتی ہے۔ جبکہ اس شعبے کے پاس اب کوئی بھی ذمے داری نہیں ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت سولڈ ویسٹ منیجمنٹ سے متعلق تمام امور کی ذمے داری سندھ سولڈ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) پر عائد ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ فعال ہوچکا ہے تو کے ایم سی کے پاس یہ شعبہ کیوں موجود ہے اور اس کے لیے کروڑوں روپے کیوں خرچ کیے جارہے ہیں۔ مئیر وسیم اختر اپنے اختیارات اور فنڈز نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے اور اس بات کا اشارہ دے کر کہ ’’وہ تو شاید اندر ہوں یا پھر باہر‘‘ میں تو شہر کی بات کررہا ہوں کہنے کے دو دن بعد یعنی 8 اکتوبر کو مئیر کانفرنس میں شرکت کے لیے کوپن ہیگن روانہ ہوگئے۔ یہ بات بھی سوچنے اور سمجھنے کی ہیکہ وہ اس کانفرنس میں کیا خطاب کریں گے اور کس منہ سے اپنے خیالات کا اظہار کریں گے؟ یہ سوال اس لیے کیا جارہا ہے کہ وسیم اختر تو کراچی کی تاریخ کے ناکام ترین مئیر ثابت ہوچکے ہیں۔ ان کے تقریباً ساڑھے تین سالہ دور میں اگر کے ایم سی کے امور میں کوئی قابل ذکر بات ہوئی ہے تو صرف یہ ہے کہ میئر کا مشیر خاص برائے باغات اربوں روپے کی جائداد اور کروڑوں روپے کی قیمتی گاڑیاں و زیورات اپنے محل نما گھر میں رکھنے کے الزام میں گرفتار ہوا۔ لیاقت قائم خانی کو کے ایم سی کے محکمہ باغات کے دفتر سے گرفتار کیا گیا۔ اس کی گرفتاری کے وقت میٹرو پولیٹن کمشنر ڈاکٹر سید سیف الرحمان بھی موجود تھے۔ جس سے اس بات کا یقین کی حد تک شبہ ہوتا ہے کہ لیاقت قائم خانی کو خلاف قانون مشیر مقرر کرنے اور ان سے سرکاری کام کرانے میں صرف میئر ہی نہیں بلکہ میٹروپولیٹن کمشنر بھی ملوث ہیں۔ یقینا نیب حکام ایم سی سے یہ سوال کریں گے یا کرچکے ہوںگے!۔
بارشوں کے بعد کراچی میں گندگی غلاظت و تعفن کی جو شکایات پیدا ہوئی تھیں اسے دور کرنے کے لیے حکومت نے صفائی مہم تو شروع کر رکھی ہے مگر حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال اور ندی نالوں کو صاف نہ کرنے والے کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے ذمے دار افسران کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جارہی۔ شاید حکومت بے بس ہے یا کوئی اور وجہ کہ نہ بلدیہ عظمیٰ، کے ایم سی کو ہٹایا گیا اور نہ ہی ضلعی بلدیاتی اداروں کے چیف ایگزیکٹو اور بلدیہ کراچی کے سینئر ڈائرکٹر میونسپل سروسز کے خلاف کارروائی کی جاسکی۔ ایسی صورت میں حکومت ایک ماہ کی صفائی مہم کا واویلا مچاکر اگر ’’حکومت کی موجودگی‘‘ کا ثبوت دینا چاہتی ہے یہ اس کی ناکام کوشش ہوگی کیونکہ ایک ماہ کیا ایک سال بعد بھی موجودہ نظام کے تحت کراچی صاف نہیں ہوسکتا۔ کراچی کو صاف ستھرا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی اور حکومتی نظام میں موجود گندگی غلاظت کو کرپشن اور بے قاعدگیوں سے پاک کیا جائے۔