وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ: ’’لوگوں میں صبر نہیں، ابھی 13 ماہ ہوئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہاں ہے نیا پاکستان؟‘‘۔ وزیر اعظم کا شکوہ بھی کچھ بجا ہی لگتا ہے۔ پاکستان کو نیا کرنے کے لیے 13 ماہ تو واقعی بہت ہی قلیل ہیں لیکن ان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آئین و قانون کے مطابق ہر حکومت کے پاس صرف 60 مہینے ہی ہوا کرتے ہیں جس میں سے وہ تقریباً 25 فی صد کا عرصہ گزار چکے ہیں۔ یہ بات کہنے سے قبل ان کو اس بات کا جائزہ ضرور لے لینا چاہیے تھا کہ ان کا سفر پاکستان کو آگے لے جانے میں صرف ہوا یا پاکستان مزید پیچھے کی جانب دھکیل دیا گیا۔ ہم نے مانا کہ قوم سے دو بڑے وعدے پورے کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ایک 50 لاکھ گھروںکی تعمیر کرکے بے گھروں میں تقسیم کرنے کا وعدہ اور دوسرا 1 کروڑ نوکریاں دینا۔ بے شک یہ دونوں وعدے پورے کرنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا لیکن ان کی جانب کچھ نہ کچھ تو پیش رفت ضرور نظر آنی چاہیے تھی۔ جب قوم یہ دیکھ رہی ہوگی کہ حکومت کی مدت میں ایک ایک ماہ کم ہوتا جارہا ہے لیکن کوئی بھی آنے والا مہینہ خوشخبری سناتا نظر نہیں آرہا بلکہ مزید مایوسیاں ہی پھیلاتا نظر آرہا ہے تو پھر ان کی بے صبری پر شکوہ سنجی کیسے درست مانی جاسکتی ہے۔
ایک جانب قوم یہ دیکھ رہی ہو کہ کیے گئے بڑے بڑے وعدے اور دعوے پورے کیے جانا تو ایک طرف، ہر کام وعدوں اور دعوؤں کے خلاف ہورہا ہو تو قوم میں مایوسی کی لہر دوڑ جانا کوئی ایسی بات نہیں جس کو انہونی یا محض مخالفین کی سازش قرار دیا جائے۔ قوم جب ڈیڑھ سال قبل کے حالات کو سامنے رکھ کر اور ٹھیک ڈیڑھ سال کے بعد کے حالات کا تجزیہ کرتی ہے تو وہ دیوانے جو آپ کے گرد مثل پروانہ طواف کیا کرتے تھے تو وہ بھی شرمندگی کی وجہ سے کونوں کھدروں میں منہ چھپانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جن غریب بیماروں کو دوائیں تک دو ڈھائی گناہ زیادہ قیمت پر مل رہی ہوں، اسپتالوں سے مفت علاج کی سہولتیں چھینی جارہی ہوں اور زیر علاج مریضوں کو اسپتال دوائیں فراہم کرنے کے بجائے انہیں اپنے زندہ رہنے کے لیے باہر کے ڈاکوؤں سے دوائیں خریدنا پڑ رہی ہوں تو پھر کیا وہ صرف صبر کا میٹھا پھل کھاکر صحت مند یا زندہ رہ سکیں گے؟۔
بات یہاں پر ہی ختم ہو جاتی کہ قوم کو مہنگائی کی دلدل ہی میں پھنسا دیا جاتا، ستم بالائے ستم یہ ہو رہا ہے کہ انہیں مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کے بجائے دلدلوں کے کنارے کھڑے ہوکر ان کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جب تک ہم تمہیں دلدل سے باہر نہیں نکال لیتے یا تم از خود کسی نہ کسی طرح اس دلدل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو جاتے ہم کم از کم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو بھوکا نہیں مرنے دیں۔ اسے سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان نے پیر کو اسلام آباد میں احساس سیلانی لنگر اسکیم کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی۔ کہاں ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ اور کہاں ’’لنگر‘‘ اسکیم۔ جو کام پاکستان کی حکومت نے گزشتہ پیر کو شروع کیا یہ کام تو پاکستان میں نجانے کتنی تنظیمیں انجام دے رہی ہیں۔ ان کے مفت اسپتال ہیں، بے شمار ایمبولینسیں ہیں، کتنا ان کا عملہ ہے اور نہ جانے ان کے لگنے والے دستر خوان سے رات دن کتنے بھوکے کھانا کھاتے ہیں۔ جماعت اسلامی سمیت کئی ایسی تنظیمیں ہیں جو کسی نمائش کے بغیر غریبوں کے گھروں میں راشن پہنچاتی ہیں۔ پاکستان میں سیکڑوں درگاہیں اور دربار ہیں جن پر رات دن کھانا دستیاب ہوتا ہے اور ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب ان کی دیگیں خالی ہوتی ہوں اور تنور ٹھنڈے ہوجاتے ہوں۔ پاکستان کے دینی مدرسوں میں پڑھنے اور ان کے ہاسٹل میں رہنے والے لاکھوں یتیم اور بے سہارا بچوں کے کھانے پینے، رہنے سہنے، ان کی تعلیم و تربیت اور لباس سمیت لاکھوں بچوں کی ہر ضروت کو پورا کیا جاتا ہے، بیسیوں دارالامان ہیں جن میں بے شمار اور معاشرے کی دھتکاری ہوئی بچیاں اور خواتین پناہ گزین ہیں لیکن ان تمام باتوں سے کیا پاکستان کی غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوگیا؟۔
وزیر اعظم عمران خان کی اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ’’نیا پاکستان ایک فلاحی ریاست ہوگا جو اب تک نہیں ہوا، ہمارے لیے مدینے کی ریاست آئیڈیل ہے لیکن وہ پہلے دن نہیں بن گئی تھی، وہ ایک جدوجہد تھی‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست مدینہ ایک مسلسل جدوجہد کے بعد ’’منورہ‘‘ بنی لیکن جس خطے میں ہم سب رہ رہے ہیں یہ قائم ہی ریاست مدینہ کے لیے کیا گیا تھا۔ جہاں تک خطہ زمین کا تعلق ہے وہ خطہ تو ایک بہت ہی طویل جدوجہد اور لاکھوں قربانیوں کے بعد آج سے 72 سال قبل ہی حاصل کر لیا گیا تھا۔ بد قسمتی سے وہاں وعدے کے مطابق اس دین کو نافذ نہیں کیا گیا جس کے لیے مسلمانانِ پاک و ہند نے قربانیاں دی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب میرے پیارے رسول سیدنا محمد عربیؐ نے مدینہ میں قدم رکھا تھا تو اسی لمحے مدینہ کو اسلامی ریاست بنادیا گیا تھا۔ بے شک آپ سے پہلے حکمرانوں نے خطہ زمین (پاکستان) کو حاصل کرنے کے بعد اپنا وعدہ بھلادیا تھا لیکن آپ کو ایسا کرنے سے 15 ماہ گزر جانے کے باوجود کس نے روکا ہے؟۔ خطہ زمین موجود ہے۔ الحمدللہ، مسلمانوں کا ٹھاٹیں مارتا سمندر بھی موجود ہے اور اللہ کی کتاب بھی بنا کسی تحریف و ترمیم موجود ہے پھر بھی آپ اگر یہ کہیں کہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے میں ایک مدت لگے گی تو یہ بات عقل و فہم سے باہر ہے۔ آپ کے پاس بھی خطہ زمین موجود ہے، اس کا مقصد وجود بھی آپ کے علم میں ہے، اس خطہ زمین میں 98 فی صد سے بھی زیادہ کلمہ گو رہتے ہیں اور اللہ کا بھیجا ہوا مکمل دستور بھی آپ کے پاس ہے پھر بھی اگر آپ یہ کہیں کہ ریاست مدینہ میرا آئیڈیل ہے لیکن اسے ریاست مدینہ بنانے میں ایک طویل جدوجہد لگے گی تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اپنے دل کے آس پاس چھپے یا ظاہرہ کھوٹ کو تلاش کیا جائے ورنہ ہزاروں صدیاں بھی اگر آپ کو اللہ عطا کردے گا تب بھی ’’کھوٹ‘‘ آپ کو ایک قدم بھی ریاست مدینہ کی جانب نہیں بڑھنے دے گا۔
لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم ابھی تک مرغی، چوزوں، انڈوں، بچھڑے اور بچھیا کے گرداب سے باہر نہیں نکل کر دے رہی۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس سیلانی لنگر اسکیم کے تحت روزانہ 600 ضرورت مند افراد کو مفت کھانا تقسیم کیا جائے گا اور اس اسکیم کو دیگر شہروں میں بھی شروع کیا جائے گا، ملک بھر میں 112 لنگر خانے کھولے جائیں گے۔ کہاں ملک سے بے روزگاری کے خاتمے اور 1 کروڑ نوکریوں کے دعوے اور کہاں صرف 600 افراد کے لیے ایک لنگر خانے کا قیام۔ اگر ان کے بقول اس پروگرام کے تحت ملک بھر میں 112 مراکز قائم بھی ہو گئے تب بھی پورے ملک میں 67200 افراد ہی اس پروگرام سے مستفید ہو سکیں گے۔ کیا اسی کو ’’وژن‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیا یہ ایک ملک کے حاکم کے سوچ کی پرواز کی حد مان لی جائے؟۔وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ اپنی ساری باتوں کا اعادہ کریں، اپنی ٹیم کا از سرنو جائزہ لیں اور اپنی تمام اسکیموں کا بھر پور جائزہ لینے کے بعد اس بات پر غور و فکر کریں کہ وہ اب تک اپنی منزل سے کتنی دور ہیں اور کیوں ہیں۔ عوام کو بے صبرا کہنے کے بجائے ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا انتظار مت کریں کیونکہ اگر یہ واقعی چھلک پڑا تو کچھ معلوم نہیں کیا گل کھلائے۔ اللہ سے کیا گیا ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ جلد از جلد پورا کریں ورنہ ممکن ہے کہ پاکستان کے عوام اللہ کے عذاب کی صورت آپ کو اقتدار میں ملے 60 مہینوں کو چند ہفتوں میں تبدیل کردیں۔