روزنامہ جسارت نے گیارہ اکتوبر کی اشاعت میں اپنی ایک منفرد (Exclusive) خبر میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ازسر نو تشکیل کو ماہرین قانون نے خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔ جس کا مقصد صوبائی حکومت کی اجارہ داری قائم کرنے کے علاوہ دیگر اور مقاصد بھی ہیں۔ خیال رہے کہ نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو 2 حصوں اے اور بی میں تقسیم کیا گیا ہے مگر بااختیار گروپ اے میں سرکاری افسران کی تعداد 4 ہے جو کسی بھی فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ نو تشکیل شدہ بورڈ کا چیئرمین صوبائی وزیر بلدیات کو بنایا گیا ہے جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ادارے کا ایم ڈی مقرر کرنے کا بھی اختیار دے دیا گیا۔ اس سے قبل یہ اختیار چیف سیکرٹری سندھ کے پاس تھا جو وزیراعلیٰ کی ہدایت اور صوبائی وزیر بلدیات کی سفارش پر کسی کو ایم ڈی مقرر کیا کرتے تھے۔ نئے بورڈ میں صوبائی حکومت نے 4 وفاقی اداروں اور کراچی کے 6 ڈی ایم سیز کی نمائندگی ہی ختم کردی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں گورننگ باڈی ’’بورڈ‘‘ کہلاتی تھی۔ اسے بورڈ آف ڈائریکٹرز نہیں کہا جاتا تھا اور بورڈ کی تشکیل ایکٹ کے تحت ہوئی ہے اس لیے اس میں کی گئی مذکورہ تبدیلی خلاف قانون ہے کیونکہ اسے تبدیل کرنے کے لیے بھی سندھ اسمبلی میں بل پیش کرنا ضروری ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ بورڈ کی 2 حصوں میں تقسیم بھی خلاف قانون ہے کیونکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سندھ اسمبلی سے 15 اپریل 1996ء کے تحت منظور کیے جانے والے بل ہوئی تھی۔ اس کے مطابق بورڈ کے ارکان کی کل تعداد 13 ہوگی جن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان ریلوے، چیئرمین کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، ڈپٹی ڈائریکٹر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ، چیئرمین ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی، میئر کراچی، ڈی ایم سیز کے چیئرمین، سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ہائوسنگ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات اور سیکرٹری انڈسٹریز شامل تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’بورڈ ‘‘ کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تبدیل کرنے کے لیے بھی سندھ اسمبلی سے بل کی منظوری ضروری ہے۔ جبکہ خبر کے مطابق سندھ کے چیف سیکرٹری نے نئے بورڈ کی تشکیل صرف اپنے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کی ہے جس میں چیئرمین بورڈ کے اختیارات بھی خلاف قانون بڑھائے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت گزشتہ چند سال سے جو بھی اقدامات کررہی ہے وہ عوام کے مفادات سے زیادہ خاص وڈیروں اور جاگیر داروں کے مفاد میں ہوتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے لیے ازسر نو تشکیل دیے گئے ’’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘‘ پر عام لوگ اتحاد پارٹی کے بانی و مرکزی رہنما اور سابق چیف جسٹس سندھ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد نے اپنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یقینا ’’حکومت سندھ عوام دوستی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتی، خدمت خلق وڈیروں کی رگ رگ میں رچ بس گئی ہے‘‘۔ اب صرف ایک ہی راستہ ہے، حکومت سندھ کی بے پناہ محبت جو ’’زہر ہلاہل‘‘ کا درجہ حاصل کر چکی ہے اب پکار پکار کر انصاف طلب کررہی ہے۔ اس انصاف کے حصول کے لیے جسٹس وجیہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ ’’ہم جو ایک فلاحی سیاسی پارٹی ہیں مفت مشاورت کی پیش کش کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سندھو دیش اور سندھ دھرتی کی بات کرتے ہوئے یہ ہمیشہ ہی بھول جاتی ہے کہ سندھ کا دارالحکومت کراچی ہے جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کا دارالحکومت تھا، جسے پاکستان بنانے والوں اور ان کی اولادوں نے آباد کیا بلکہ اسے ترقی دے اس قابل کیا کہ وہ پورے ملک کو چلانے کے لیے 70 فی صد ریونیو فراہم کرے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ گورنمنٹ 2008 سے کراچی پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لیے یہاں کے اداروں کو جس طرح قبضے میں لے رہی ہے اس کا مطلب بھی صرف یہی ہے کہ یہاں کی زیادہ سے زیادہ آمدنی قابو میں کرسکے۔ گزشتہ نو سال کے دوران سندھ حکومت کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ، کے ایم سی کے فوڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول، کراچی کے ٹریفک انجینئرنگ بیورو، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) اور بلدیاتی اداروں کے صفائی ستھرائی کے نظام کو اپنے کنٹرول میں لے چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی، صفائی ستھرائی کا نظام سندھ سولڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ، کراچی کے فوڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول ڈپارٹمنٹ کو سندھ فوڈ اتھارٹی کا نام دے دیا گیا۔ کراچی کے منظم اور مربوط بلدیاتی نظام کو اضلاع کی سطح پر تقسیم کرکے اس کا براہ راست کنٹرول صوبائی محکمہ بلدیات کے حوالے کردیا گیا اور اب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ حکومت پورے کراچی تا گھارو اور پپری تک پانی فراہم کرنے والے ادارے کو مکمل قابو میں کرنے کے لیے اسے سندھ واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی میں تبدیل کردے گی۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی خلاف قانون تشکیل اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ واٹر بورڈ کے ’’بورڈ‘‘ کی ازسرنو تشکیل کے نام پر ’’بورڈ آف ڈائریکٹرز‘‘ کی تخلیق سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کا ایک اور ادارہ چھننے کی تیاری کررہی ہے۔ اس بورڈ آف ڈائریکٹر کو اس لیے غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ’’بورڈ‘‘ سندھ اسمبلی کے منظور کردہ بل کے تحت 15 اپریل 1996 کو تشکیل دیا گیا تھا اس بورڈ کی تحلیل یا ازسر نو تشکیل کے لیے بھی سندھ اسمبلی کی منظوری ضروری ہے۔ مگر سندھ حکومت ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘۔ کے مصداق واٹر بورڈ کو بھی چلارہی ہے۔ سندھ اسمبلی کے ایکٹ کے تحت مذکورہ بورڈ وفاقی صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل تھا مگر ازسر نو تشکیل کے تحت اس بورڈ کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کا نام دے وفاقی اور مقامی اداروں کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ کراچی کے ایک اہم ادارے کے لیے اس قدر من مانی کے باوجود کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی رد عمل کا اظہار تک نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ نواز اور مسلم لیگ فنکشنل سمیت دیگر جماعتوں کی خاموشی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کے حقوق کے لیے کوئی بھی مخلص نہیں ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر کراچی کے دیگر اداروں کا بھی اللہ حافظ ہے۔