ریاست مدینہ اور لنگر خانے

337

اس غیر منصفانہ نظام میں جسے سرمایہ داریت کہتے ہیں ایسا ہی ممکن ہے۔ حکمرانوں اور عوام، غریب اور امیر کے درمیان ظلم کی وسیع ہوتی خلیج۔ ایک طرف حکمران طبقہ ہے جن کے جسموں پر مہنگے ترین ملبوسات ہیں، مہنگی ترین لگژری گاڑیاں ہیں، روشنیوں سے جگ مگ کرتے محل ہیں، قہقہے، خوشیاں اور شادیانے ہیں۔ دوسری طرف عوام ہیں جن کے لیے بدبو اور غلا ظت سے اٹی گلیاں اور بازار ہیں، علاج تک عدم رسائی کے باعث مرنے والوں کی آہیں اور سسکیاں ہیں اور درودیوار سے لپٹے آنسو، دکھ اور درد۔ غریب عوام کے لیے ٹیکسوں کا بوجھ ہے، آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے اور پہنچ سے با ہر ہوتی اشیاء صرف ہیں۔ مہنگے اسپتال، ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ اور سیلف فنانسنگ کی طرف موڑ دی گئی یونی ورسٹی تعلیم ہے۔ گزشتہ حکومتیں بھی اس صورتحال کی ذمے دار ہیں لیکن موجودہ حکومت کے 13ماہ میں تو قیامت بپا ہو گئی ہے۔ ہر شعبے میں زندگی رک گئی ہے۔ اپنی بقا کے لیے پکار رہی ہے، چیخ رہی ہے۔ کاروبار کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ تاجر کبھی آرمی چیف کے در پر ٹکریں مار رہے ہیں کبھی کاروباری معاملات سے بے گانہ اور اجنبی وزیر اعظم سے۔ کاروبار کو شرم ناک اور قابل ملامت الجھنوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ آرڈی ننس کے ذریعے تین سو ارب کی خطیر رقم دوستوں کو معاف کردی گئی۔ اسٹاک ایکس چینج کے بروکروں کو اربوں روپے کے پیکج دے دیے گئے۔ حکمرانوں کے لیے پر تعیش بنی گالہ، بلاول ہائوس، رائے ونڈ اور غریبوں کے لیے سسکتی زندگی۔ 22برس تک لوگوں سے چاند اور تاروں کے وعدے کیے گئے اور اقتدار ملنے کے بعد ان سیاروں اور ستاروں کا لنگر خانوں میں لاکر قتل کردیا گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر میں لوگوں کو سو جوتے اور سو پیاز کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ مغرب میں جہاں دولت کے پہاڑ ہیں وہاں بھی چرچ اور رفاحی تنظیمیں لنگر خانے کھولنے پر مجبور ہیں۔ یہ نظام اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی علمبردار، دنیا کی سب سے بڑی معیشت، امریکا ترقی یافتہ دنیا کا سب سے غیر مساوی معاشرہ ہے۔ امریکا میں ہر حکومت کی پالیسیاں امیروں کو فائدہ پہنچاتی ہیں جب کہ غریبوں کی مشکلات میں اضافوں کا باعث بنتی ہیں۔ امریکا میں چار کروڑ افراد غریب جب کہ دو کروڑ افراد انتہائی غریب ہیں۔ 50لاکھ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حامل ریاستیں دنیا بھر میں غریبوں سے سہولتیں چھین رہی ہیں۔ امریکی حکومتیں یہ تاثر دینے میں مصروف رہتی ہیں کہ سرکاری ویلفیئر سے فائدہ اٹھانے والے لوگ کاہل اور نکمے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ مزدوری کرنے کے قابل ہیں لہٰذا حکومت کی طرف سے انہیں ملنے والی امداد بشمول غذائی امداد کم کردینی چا ہیے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا علم بردار امریکا آمدنی میں فرق کے اعتبار سے مغربی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جہاں امریکا کی ایک فی صد آبادی ملک کی کل دولت کے 38فی صد کی ما لک ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے حالیہ دنوں میں 15کھرب ڈالر کی جن ٹیکس کٹوتیوں کا اعلان کیا گیا ہے ماہرین کے مطابق ان کا فائدہ امیروں کو پہنچے گا۔ غریبوں کے حالات مزید ابتر ہو جائیں گے۔
صرف اسلام ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے مہلک نتائج سے دنیا کو بچا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا جب آغاز ہوا عالم اسلام تنزلی اور پستی کا شکار ہو چکا تھا۔ جہالت، غربت اور پس ماندگی اسے چاروں طرف سے گھیر چکی تھیں۔ اگر سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز اسلام کے عہد غلبہ میں ہوتا تو اسلام اس کو یونہی آزاد اور بے لگام کبھی نہ چھوڑتا بلکہ ایسے اصول اور قوانین ترتیب دیتا جن کی موجودگی میں سرمایہ دارانہ نظام سے دنیا کو اس استیصال کا خطرہ نہ رہتا جن سے وہ آج دوچار ہے۔ سرمایہ داروں کی بدنیتی کے باعث سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اور اس کے باعث پیدا ہونے والی معاشرتی نا انصافی ہو یا سرمائے کی اپنی فطرت میں پوشیدہ زہر ناکی، اسلامی قوانین ان تمام کا با کمال علاج کرسکتے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا انحصار سودی قرضوں اور بینکوں پر ہے جس کا نتیجہ آئے دن کساد بازاری اور بحرانوں کی صورت میں نکلتا رہتا ہے۔ دنیا ابھی 2008 کے معاشی بحران سے نکلی نہیں ہے کہ ماہرین ایک بہت بڑے معاشی بحران کی آمد کی خبر دے رہے ہیں 2020 یا اس سے اگلے برس تک جس کا آغاز متوقع ہے۔ صدرٹرمپ انتخابات تک جسے ٹالنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اس بحران کی وجہ سود ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں قرضوں اور بینکوں کے کاروبار کی اساس سود ہے۔ اسلام میں نہ صرف سود کی ممانعت ہے بلکہ اسلام سود کو اس کی جڑوں سے کاٹتا ہے۔
کمیونزم اور سرمایہ داریت سے پیدا ہونے والی مشکلات ہوں یا دیگر مسائل اسلام دنیا کے معاملات سلجھانے میں دیگر نظاموں کے مقابلے میں ایک عظیم فوقیت رکھتا ہے۔ اسلام کی یہ خوبی کسی خارجی دبائو کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا باعث اسلام کے حق اور انصاف کے ابدی قوانین اور اصول ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں حکومتیں ارتکاز دولت کے معاملے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ اسلام اس معاملے میں بے بس نہیں ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کی صورت میں یہ ممکن ہی نہیں کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے۔ اسلام کا قانون وراثت اس کی شاندار مثال ہے۔ اسلام لوگوں کے اندر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ ابھارتا ہے خواہ اس کے لیے سب کچھ لٹانا پڑے۔ جس معاشرے میں خوشحال لوگ اس طرح اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہاں ارتکاز دولت باقی رہتی ہے اور نہ غربت اور افلاس۔
اسلام نے لوگوں کو خیرات زکوۃ اور لنگروں پر انحصار کرنا نہیں سکھایا۔ غربت کے خاتمے اور غریبوں کی داد رسی کے لیے اسلام نے زکوۃ اور خیرات کا نظام وضع کیا ہے۔ زکوۃ ایک قانونی حکم ہے۔ یہ پہلا باقاعدہ ٹیکس ہے جو دنیا میں کسی قوم پر عائد کیا گیا۔ اس سے پہلے حکمرانوں کی مرضی ٹیکس کا تعین اور اس کی وصولی کرتی تھی۔ ان ٹیکسوں کا سارا بوجھ آج کی طرح امیروں کے بجائے غریبوں پر ہوتا تھا۔ اسلام نے زکوۃ امیروں اور متوسط طبقات پر عائد کی ہے۔ جو لوگ اس کی ادائیگی سے انکار کرتے ہیں اسلامی حکومت ان سے جنگ کرتی ہے۔ غریب اس ٹیکس کی ادائیگی سے مکمل طور پر مستثنیٰ ہیں۔ زکوۃ کی رقم کن مصارف پر خرچ کی جاسکتی ہے خود اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کا تعین کیا ہے۔ غریبوں کو زکوۃ کی ادائیگی کی اس افراط کے باوجود اسلامی معاشرہ واحد معاشرہ ہے جس میں محض زکوۃ پر انحصار کرنے والے کسی غریب طبقے کا کوئی مستقل وجود نہیں پایا جاتا۔ ہر مسلمان کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ زکوۃ لینے والا نہیں بلکہ زکوۃ دینے والا بنے۔ زکوۃ حکو مت وصول کرتی ہے اور وہی عوام میں اس کو تقسیم بھی کرتی ہے۔ اس نظام سے وہ خوش حالی آتی ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور خلافت کے ایک حامل زکوۃ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں ’’عمر بن عبدالعزیزؒ نے مجھے زکوۃ کی وصولی کے لیے افریقا بھیجا میں نے زکوۃ جمع کرکے غریبوں کی تلاش کی مگر مجھے کوئی غریب نہ ملا اور نہ کوئی اور مستحق جو اسے لیتا‘‘۔
جہاں تک خیرات کا تعلق ہے خیرات ایک رضا کارانہ فعل ہے جس پر قانون یا حکومت لوگوں کو مجبور نہیں کرتی۔ خیرات اس دولت کا نام ہے جو امیر اور خوشحال لوگ اپنی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔ اسلام نے صدقات اور خیرات کو پسندیدہ قرار دے کر اس کی بے حد حوصلہ افزائی کی ہے مگر اسلام یہ ہر گز نہیں چاہتا کہ معاشرے میں غریبوں اور محتاجوں کا کوئی مستقل طبقہ ہو۔ اسلام چاہتا ہے کہ معاشرے میں زکوۃ اور خیرات لینے والے نہیں بلکہ زکوۃ اور خیرات دینے والے ہوں۔ اسلام نے ریاست پر یہ ذمے داری عائد کی ہے کہ وہ تمام شہریوں کے لیے آبرو مندانہ زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کا انتظام کرے نہ کہ ان پر روزگار کے دروازے بند کرکے لنگر خانے کھو لتی پھرے۔ حکومت ایک طرف غیر اسلامی ظالمانہ ٹیکس پر ٹیکس لگاتی چلی جائے، ایسے اقدامات کرے کہ کارخانے فیکٹریاں اور بازار بند ہو جائیں، ایک برس میں 30فی صد لوگ بے روزگار ہوجائیں اور پھر انہیں لنگر خانوں کی قطاروں میں کھڑا کردے اسلام کے نزدیک یہ ظلم ہے۔ ایسا ظلم جو اسلام کو کسی طور گوارا نہیں۔