کشمیر اور عالمی برادری

181

امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ بھارتی اقدام سے کشیدگی بڑھ گئی ہے اور صورتحال تشویشناک ہے۔ امید ہے دوست ملک کشیدگی کم کروانے کے لیے کردار اداکریں گے۔ دوسری جانب روس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بھارتی فیصلے کی حمایت کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اختلافات کو شملہ معاہدے کے تحت دو طرفہ بات چیت کے ذریعے سلجھا لیا جائے گا۔ روسی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل کیا جانا اور اسے دو ریاستوں میں تقسیم کیے جانے کا بھارتی اقدام بھارتی آئین کے دائرہ کار کے تحت کیا گیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ دونوں فریق اس اقدام کے نتیجے میں خطے کی صورتحال کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔ واضح رہے کہ دیگر بڑی طاقتوں بالخصوص سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے برعکس چین سلامتی کونسل کا وہ واحد مستقل رکن ہے جس نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم پر پاکستان کے مبنی بر حقیقت موقف کی مکمل حمایت کی ہے۔ چین نے مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورتحال پراب تک جو رسپانس دیا ہے وہ یقینا ایک آزمائے ہوئے دوست ملک کے شایان شان موقف ہے۔ چین نے کشمیر کی صورتحال پر نہ صرف سیکورٹی کونسل میں پاکستانی موقف کی کھل کر حمایت کی ہے بلکہ چین نے کشمیر کے ایشو پر اپنی وزارت خارجہ میں ایک فوکل پرسن کی نامزدگی کے ذریعے بھی ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کا لازوال دوست ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ چین مقبوضہ کشمیر کونہ صرف متنازع علاقہ سمجھتا ہے بلکہ وہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر بھی زور دیتا آیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین کے موقع پر بھی چین نے ایک بار پھر کشمیر پر پاکستان کے مبنی بر انصاف موقف کی کھل کر حمایت کی ہے جس کا ثبوت چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر چین کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مسئلہ کشمیر پر بیجنگ کا موقف مستقل اور واضح ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی اعتماد کو بڑھائیں گے۔ یاد رہے کہ بھارتی میڈیا نے چینی صدر کے دورہ بھارت سے چند دن پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ چین نے مسئلہ کشمیر پر اپنا موقف بدل لیا ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی کشمیر سے متعلق بیان واپس لینے کا بھارتی مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق ملائیشین وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کا تنازع کیسے حل کرنا ہے۔
دریں اثناء امریکی رکن کانگریس تھامس سوزی نے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ تشویشناک صورتحال پر امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو کو لکھے گئے ایک خط میں استفسار کیا ہے کہ بتائیں وہ کیا کر رہے ہیں؟۔ امریکی رکن کانگریس نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر انہیں شدید تشویش ہے، کشمیر کی خود مختاری پر نئی پابندیاں کشمیری نوجوانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی طرف مائل کر سکتی ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی کی جانب سے مقبوضہ وادی کشمیر کو حاصل نیم خودمختاری کو آئین میں تحفظ دینے والی شق 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی جنونی ہندوئوں کے گھنائونے عزائم سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے مقبوضہ وادی سمیت پورے ہندوستان میں مسلمانوں میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ بھارتی ریاست ہریانہ کے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندانہ خیالات کے حامل وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے فتح آباد میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کا راستہ صاف ہونے کے بعد ان کے نوجوان اب کشمیر میں زمین بھی لیں گے اور انہیں لڑکیاں بھی ملیں گی اس بیان سے بھارت کے بی جے پی سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند راہنمائوں کے مکروہ چہرے دنیا پر ایک بار پھر آشکارہ ہو گئے ہیں۔
عالمی برادری خاص کر بڑی طاقتوں کی کشمیر کی گمبھیر صورتحال پر سرد مہری کے حامل موقف کو دیکھتے ہوئے ہمیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستانیوں اور کشمیروں کو عالمی برادری کے تعاون کے حوالے سے کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے۔ یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل آزاد کشمیر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویسے تو ہم امہ اور اسلام کی بات کرتے ہیں مگر امہ کے محافظوں نے بھارت میں بہت ساری سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہاں ان کے مفادات ہیں۔ یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی نے یہ بات ایسے وقت پر کی تھی جب ایک جانب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم ودرندگی کی نئی تاریخ رقم کر رہا تھا اور دوسری طرف ہمارے ایک برادر اسلامی ملک کی سب سے بڑی آئل کمپنی پچیس ارب ڈالر کی ڈیل کے ذریعے انڈین کمپنی ریلائنس کے 20 فی صد شیئرز خرید کر بھارت میں سرمایہ کاری کا نیا ریکارڈ قائم کرر ہی تھی۔ اسی طرح عین ان دنوں جب مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون اور تاریخ کا طویل ترین کرفیو تازہ تازہ نافذ ہوا تھا ایسے میں ایک اور اسلامی ملک کی جانب سے نریندر مودی کو اس ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جا رہا تھا لہٰذا اس صورتحال میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے اگر امید کی کوئی کرن باقی ہے تو وہ پاکستان ہی ہے جس سے کشمیری عوام نے بے پناہ توقعات باندھ رکھی ہیں امید ہے پاکستان ان کو مایوس نہیں کرے گا۔