رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مومن میں ہر خرابی ہوسکتی ہے مگر مومن جھوٹا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے ہماری سیاسی زندگی کو جھوٹ پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ہماری سیاست جھوٹ کھاتی ہے، جھوٹ پیتی ہے، جھوٹ اوڑھتی ہے، جھوٹ بچھاتی ہے، جھوٹ کے اس بازار میں شریف خاندان جھوٹوں کا سردار بن کر اُبھرا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ برطانیہ کے ایک معروف اخبار نے میاں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ پر الزام لگایا تھا کہ وہ 2005ء کے زلزلے کے سلسلے میں آنے والے فنڈز میں کروڑوں روپے ہڑپ کر گئے ہیں۔ اس الزام پر ’’خادم اعلیٰ‘‘ میاں شہباز شریف طیش میں آگئے اور انہوں نے ٹی وی پر آکر اعلان کیا کہ برطانیہ کے اخبار کی ’’اسٹوری‘‘ جھوٹی ہے اور وہ جھوٹ بولنے والے برطانوی صحافی اور اخبار دونوں کے خلاف جلد ہی برطانیہ کی عدالت میں مقدمہ دائر کریں گے۔ برطانیہ کے اخبارات میں کسی پر جھوٹا الزاام لگانا آسان نہیں۔ برطانیہ کے قوانین کے تحت جھوٹا الزام لگانے والے کو عدالت میں گھسیٹا جاسکتا ہے اور اس کے جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرکے اس سے کروڑوں بلکہ اربوں روپے ہرجانے میںوصول کیے جاسکتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کو اربوں روپے کمانے کا بہترین موقع میسر آیا تھا۔ مگر بدقسمتی سے میاں شہباز شریف نے یہ موقع ضائع کردیا ہے۔
اس کا ٹھوس ثبوت روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر ہے۔ خبر کے مطابق شہباز شریف کے خلاف زلزلہ زدگان کے فنڈز میں مبینہ خوردبرد کی رپورٹ شائع کرنے والے برطانوی صحافی ڈیوڈ روز نے شکوہ کیا ہے کہ وہ تاحال شہباز شریف کی جانب سے اپنے خلاف ہتک عزت کے مقدمے کا منتظر ہے۔ ڈیوڈ روز نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ کئی پاکستانی دوستوں نے اس بارے میں پوچھا ہے لیکن شہباز شریف نے ان کے خلاف اب تک کوئی مقدمہ نہیں کیا۔ شہباز شریف نے ان کے اخبار کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔ (روزنامہ جنگ کراچی 9 اکتوبر 2019ء)
اس خبر سے صاف ظاہر ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ نے زلزلہ زدگان کے فنڈز میں خورد برد کی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ برطانیہ کے صحافی اور الزام لگانے والے اخبار دونوں کے خلاف ضرور قانونی کارروائی کرتے۔ لیکن یہ صرف شہباز شریف کا قصہ نہیں بدعنوانی اور جھوٹ پورے شریف خاندان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نواز شریف نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر تقریر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا جناب اعلیٰ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کی جائداد خریدی گئی مگر جب معاملہ عدالت میں آگیا تو میاں نواز شریف ذرائع کی منی ٹریل دینے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔ چناں چہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو میاں نواز شریف کے سلسلے میں ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’سسلین مافیا‘‘ کی اصطلاحیں استعمال کرنا پڑیں۔ پاناما اسکینڈل کے بعد مریم نواز کا ’’ذکر خیر‘‘ جیو پر ہوا تو مریم نواز ثنا بچا کے پروگرام میں اسکرین پر جلوہ افروز ہوئیں اور فرمایا کہ میرے بیرون ملک کیا ملک کے اندر بھی اثاثے نہیں ہیں۔ مگر بعدازں ثابت ہوا کہ ان کے اثاثے ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان حقائق کے باوجود میاں نواز شریف خود ان کو ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کی طرح پیش کرتے ہیں۔ میاں شہباز شریف خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں، مریم نواز ’’جھانسی کی رانی‘‘ کی طرح ’’Behave‘‘ کرتی نظر آتی ہیں۔ مگر جھانسی کی رانی نے ’’جنگ آزادی‘‘ لڑی تھی اور مریم نواز ’’جنگ بدعنوانی‘‘ لڑ رہی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مریم نواز جھانسی کی رانی کیا ’’جھانسی کا پانی‘‘ بھی نہیں ہوسکتیں۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے والد بزرگوار کا قصہ بھی سن لیجیے۔ وہ سابق آرمی چیف جنرل آصف جنجوعہ کو ’’بیٹا‘‘ کہا کرتے تھے مگر یہ بھی جھوٹ تھا۔ چناں چہ میاں نواز شریف نے ایک رات جنرل آصف نواز کو رات کے کھانے پر بلا کر انہیں ایک ’’مرسڈیز‘‘ رشوت کے طور پر پیش کی۔ فرمایا میں نے اپنے سب بیٹوں کو یہ گاڑی دی ہے آپ بھی میرے بیٹے ہیں۔ مگر حقیقی بیٹوں کو میاں شریف نے ’’تحفہ‘‘ دیا تھا۔ جنرل آصف نواز کو وہ ’’رشوت‘‘ دے رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ بیٹوں کو رشوت نہیں دی جاتی۔ چوں کہ مرسڈیز رشوت تھی اس لیے جنرل آصف نواز نے گاڑی لینے سے انکار کردیا۔ وہ انکار نہ کرتے تو یہ قصہ کبھی باہر نہ آتا۔ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بنے تو میاں شریف نے انہیں بھی ’’بیٹا‘‘ قرار دے دیا۔ جس طرح میاں شریف نے جنرل آصف نواز کو ’’بیٹا‘‘ قرار دے کر رات کے کھانے پر بلایا تھا۔ اسی طرح میاں شریف نے ’’نئے بیٹے‘‘ جنرل پرویز مشرف کو بھی کھانے پر گھر بلایا۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز کھانا کھا کر روانہ ہوئے تو میاں شریف نے میاں نواز شریف نے کہا اس آدمی کی آنکھیں بہت خطرناک ہیں اسے فوراً آرمی چیف کے عہدے سے ہٹادو۔ جنرل پرویز میاں شریف کے گھر آئے تھے تو وہ ’’بیٹے‘‘ تھے۔ جنرل پرویز گھر سے رخصت ہوئے تو وہ ’’دشمن‘‘ تھے۔
چودھری شجاعت حسین نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں میاں شہباز شریف کیا پورے شریف خاندان کے حوالے سے ایک ہولناک واقعہ لکھا ہوا ہے۔ چودھری شجاعت نے لکھا ہے ان کا شریفوں کے ساتھ معاہدہ ہوا تو میاں شہباز شریف کسی مطالبے یا تقاضے کے بغیر قرآن پاک اُٹھا لائے۔ انہوں نے چودھری شجاعت سے کہا کہ قرآن ہمارے درمیان ہونے والے سیاسی معاہدے کا ضامن ہے۔ چناں چہ ہم آپ سے کیے گئے ایک ایک وعدے کو پورا کریں گے۔ چودھری شجاعت کے بقول شریفوں نے بعدازاں ان سے کیے گئے کسی وعدے کو پورا نہ کیا۔ اسلام میں قرآن کو ضامن بنائے بغیر جھوٹ بولنا بھی گناہِ کبیرہ ہے لیکن شاید ہی کوئی بدبخت اور لعنتی مسلمان ہوگا جو اپنی مرضی سے قرآن کو ضامن بنائے اور پھر وعدے کی خلاف ورزی کرے۔ بدقسمتی سے شریف خاندان ایک ایسا ہی بدبخت اور لعنتی خاندان ہے جو قرآن کو ضامن بنا کر بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن صرف شہباز شریف لائے تھے پورا خاندان نہیں۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ چودھری شجاعت اور شریفوں کے درمیان معاہدہ شریفوں کی رہائش گاہ پر ہوا تھا۔ چناں چہ جب شہباز شریف قرآن اُٹھا کر لائے ہوں گے تو انہوں نے پورے خاندان کے سامنے ہی یہ کیا ہوگ۔ چناں چہ قرآن کو ضامن بنانے میں پورا شریف خاندان شریک تصور کیا جائے گا۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب شہباز شریف قرآن کو ضامن بنارہے تھے تو شریف خاندان کے کسی رکن نے انہیں ایسا کرنے سے روکنا ضروری نہیں سمجھا۔ شہباز شریف کو کوئی روکتا اور وہ نہ رکتے تو پھر شہباز شریف قرآن کو ضامن بنانے کے تنہا ذمے دار ہوتے۔ یہاں کہنے کی ایک اور بات یہ ہے کہ میاں شہباز شریف معاہدے کے حوالے سے اس لیے قرآن کو درمیان میں لائے تا کہ شریفوں کے معاہدے کو ’’اعتماد‘‘ حاصل ہو جائے۔ یعنی شریفوں کا اپنا تصور ذات یہ ہے کہ کوئی اور کیا چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی تک انہیں قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ بلاشبہ قرآن کو ضامن بنا کر جھوٹ بولنے والا صرف جھوٹا نہیں بلکہ وہ اسلام کا غدار ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے جرنیل آئین کی تکریم نہیں کرتے اور وہ غلط نہیں کہتے۔ جنرل ضیا الحق نے ایک بار آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا تھا مگر شریف خاندان کے نزدیک تو قرآن کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
شریف خاندان صرف قرآن ہی پر جھوٹ نہیں بولتا وہ پاکستان کے ساتھ تعلق کے حوالے سے بھی جھوٹ بولتا ہے۔ شریف خاندان کہتا ہے کہ وہ پاکستان کا ’’وفادار‘‘ ہے۔ مگر شریف خاندان کو پاکستان سے وفا داری کی کہانی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں بیان کی ہے۔ جنرل درانی کے دعوے کے مطابق میاں شہباز شریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ راجہ امریندر سنگھ کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ کسی کو اس کتاب سے دلچسپی ہو تو میاں شہباز شریف اور راجہ امریندر سنگھ کی گفتگو کا احوال ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ کے ایک خاص باب میں موجود ہے۔ اس باب کا عنوان ہے ’’اکھنڈ بھارت‘‘۔ یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ اسپائی کرونیکلز کو شائع ہوئے اب عرصہ ہوگیا مگر شریف خاندان نے آج تک جنرل اسد درانی کے بیان کی تردید نہیں کی حالاں کہ یہ کتاب کئی بار قومی پریس میں زیر بحث آئی ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ جنرل درانی نے جو لکھا ہے صحیح ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ شریف خاندان صرف اسلام کا غدار نہیں وہ پاکستان کا بھی غدار ہے۔
ایک وقت تھا کہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد میاں نواز شریف کے لیے اتنے محترم تھے کہ وہ انہیں اپنے گھریلو جھگڑوں میں ’’ثالث‘‘ بنالیا کرتے تھے مگر ایک وقت وہ آیا کہ میاں نواز شریف نے قاضی صاحب پر یہ بے بنیاد الزام لگایا کہ انہوں نے ان سے 10 کروڑ روپے لے کر ہڑپ کرلیے ہیں۔ یہ ایک بہتان تھا اور میاں نواز شریف اس سلسلے میں کبھی کوئی شہادت پیش نہ کرسکے۔ بدقسمتی سے شریف خاندان کو لاکھوں لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن مذکورہ بالا ٹھوس حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد بھی کوئی شخص شریفوں کا ’’ووٹر‘‘ اور ’’سپورٹر‘‘ رہتا ہے تو اس کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ شریفوں کے لیے اپنی آخرت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔