’’میں حیران ہوں کہ عالمی میڈیا ہانگ کانگ کے مظاہروں پر تو سرخیاں جماتا ہے مگر کشمیر میں انسانی حقوق کے سنگین بحران سے نظریں چرالیتا ہے۔ کشمیر عالمی طور پر طے شدہ متنازع علاقہ ہے۔ بھارت نے 9لاکھ فوجیوں کی مدد سے 80لاکھ کشمیریوں کو محصور کرکے اس پر غیر قانونی قبضے کی کوشش کی ہے‘‘۔ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دنوں میں کیا جانے والا ایک ٹویٹ۔
کچھ عرصے سے وزیراعظم عمران خان ایک بے معنی اداکاری میں مصروف ہیں۔ ایک طرف وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں مغرب کو اچھی طرح جانتا ہوں دوسری طرف وہ مغربی میڈیا کی دوعملی پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اس انداز میں جیسے یہ بات انہیں آج ہی پتا چلی ہو۔ یہ حرکتیں وہ اس لیے کر رہے ہیں کہ کسی بھی عنوان سے سہی لوگوں سے داد سمیٹ سکیں۔ ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا سکیں۔ کبھی وہ اسلام کے بارے میں مغرب کے رویوں کو ہدف تنقید بناتے ہیں تو کبھی مغربی میڈیا کے دوغلے پن پر لعن طعن کررہے ہوتے ہیں۔ یہ حرکتیں وہ شخص کررہا ہے جو خود یوٹرن اور قول وفعل کے تضاد کو کلمہ حق کے مترادف اور ایک عظیم لیڈر کی نشانی گردانتا ہے۔ آپ مغرب سے انصاف کے طالب ہیں لیکن خود آپ نے عدالتوں کو انصاف کا ماتم کدہ بنادیا ہے۔ سورج سے زیادہ روشن دلیلوں کے مقابل ہماری عدالتیں منہ موڑے کھڑی ہیں۔ رانا ثنا اللہ کے مقدمے کی تفصیلات جوں جوں سامنے آرہی ہیں کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ انصاف کی گردن زنی پر کس سے فریاد کی جائے۔ بائیس برس کی جدوجہد سے حاصل کردہ اقتدار کو عمران خان کن حرکتوں میں ضائع کررہے ہیں۔ منتقم مزاجی نے ان کی عقل سلب کرلی ہے۔ وہ غیظ وغضب میں بھرے ہوئے ایسا شخص نظر آتے ہیں جو اپنے جوش میں ہر چیز توڑتا پھوڑتا جارہا ہے اور اس کے لیے بگاڑ کی ہر طاقت سے کام لے رہا ہے۔ رانا ثنا اللہ کے خلاف حکومت کوئی ٹھوس تو کجا کمزور ثبوت پیش کرنے میں بھی ناکام ہے۔ ثبوت پیش کرنے کے بجائے وفاقی وزارت قانون نے واٹس اپ کے ذریعے انسداد منشیات عدالت کے جج کو تبدیل کردیا۔ آج تک نیا جج مقرر نہیں کیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب مولانا فضل الرحمن کے متوقع دھرنے نے حکومت کے ہاتھ پائوں پھلا رکھے ہیں اس خوف سے کہ کہیں نواز شریف ضمانت پر باہر نہ آجائیں برسوں پرانے قضیے کا سہار لے کر نیب ان کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست لے کر عدالت جا پہنچی۔ آفرین ہے عدالت پر یہ درخواست منظور بھی کرلی گئی۔ نیب نے ایک بار پھر انہیں اپنی تحویل میں لے لیا۔ ماہرین قانون حیران ہیں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک ملزم کو جیل سے نکال کر تفتیشی ادارے کے سپرد کردیا جائے۔ جیل ہی میں ان سے تفتیش کیوں نہ کرلی گئی؟
جبر اور ظلم انسان کو کتنا مضبوط اور لہجے کو کیسا غضبناک بناتا ہے عدالت پیشی پر نواز شریف کے تیور دیکھ لیجیے۔ لگتا ہے اب وہ حدود سود وزیاں سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس بھی ابھی تک پیش نہیں کیا جاسکا۔ کئی ماہ سے وہ پابند سلاسل ہیں اور اپنے خلاف ثبوت مانگ رہے ہیں۔ شنوائی عدالتوں کا وظیفہ اور انصاف طریق عمل ہوتا ہے لیکن ہماری عدالتیں اس خدائی معمول کو اپنانے پر تیار نہیں۔ بات طویل ہوگئی کہنا یہ ہے کہ مغربی میڈیا کی ناانصافی کا شکوہ وہ شخص کررہا ہے جس کی حکومت قائم ہی ناانصافی پر ہے۔ اقتدار ظالم بناتا ہے یہ کسی کو دیکھنا ہے تو حاکموں کو دیکھ لیجیے۔
دنیا کی تمام حکومتیں میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان میں بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے میڈیا پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ عوام کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی مشکل بنادی ہے۔ عمران خان سے اپوزیشن برداشت ہورہی ہے اور نہ میڈیا۔ وہ میڈیا سے من پسند کوریج سے کم کسی بات پر راضی نہیں۔ کتنے ہی صحافی ہیں جن کے پروگرام بند کردیے گئے ہیں۔ اخبارات کی وہ حالت کردی گئی ہے کہ بیش تر میڈیا ہائوسز کو ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا دشوار اور انتہائی دشوار ہو گیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کا جس طرح گلا گھونٹا گیا ہے مغربی میڈیا اس کے مقابلے میں لاکھ گنا آزاد ہے۔ مغربی میڈیا آزاد ہے جب ہی تو آپ کی تقریر کو اتنی کوریج ملی۔ کیا آپ پاکستان میں میڈیا کو اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو اتنی کوریج دے جتنی مغربی میڈیا نے آپ کو دی ہے۔ پاکستانی میڈیا کی گردن مروڑ رہے ہیں، اس کو سزائیں دے رہے ہیں، تنگ کررہے ہیں اور پھر مغربی میڈیا کو برا بھلا کہہ رہے ہیں یہ بات اب عمران خان کی فطرت بن گئی ہے۔
عمران خان کی یہ بات درست نہیں ہے کہ مغربی میڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی پوری طرح کوریج نہیں کی۔ مغربی میڈیا نے کشمیر میں مودی کے مظالم کو بھر پور طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ اہل کشمیر کے معاملے میں جو پالیسی عمران خان کی حکومت کی ہے وہی پالیسی مغربی حکومتوں کی ہے۔ جب سے مودی نے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کیا ہے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ہر اس عمل سے گریز کررہی ہے جس سے کشمیریوں کی حقیقی مدد ہو سکے۔ جھنڈے لہرائے جارہے ہیں، تقریبات منعقد کی جارہی ہیں، دھواں دھار تقریریں کی جارہی ہیں، میڈیا پر متواتر خبریں اور تبصرے چلائے جارہے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر حکومت کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈھائی ماہ ہونے کو آرہے ہیں اہل کشمیر قید میں مرر ہے ہیں۔ بھارتی فوجیں انہیں بے دریغ قتل کررہی ہیں۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ہماری قیادت ایسا ہی چاہتی ہے۔ اس نے مودی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اہل کشمیر کے ساتھ کچھ بھی کر لو ہمیں آپ سے جنگ نہیں کرنی۔ ہم کسی کو کنٹرول لائن پار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جہاد کرنا تو درکنار ہم کسی کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دیں گے کہ وہ پاک فوج کو بھارت سے جہاد پر اکسانے کے لیے بینر بھی لگائے۔ مغربی حکومتیں بھی اسی کردار کا مظاہرہ کررہی ہیں۔
صدر ٹرمپ سے لے کر تمام مغربی قائدین اور حکومتیں کشمیریوں سے ہمدردی کا اظہار کررہی ہیں لیکن حکومت پاکستان کی طرح عملی طور پر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان طاقتور اقوام کے لیے مودی کو جارحانہ اقدامات سے روکنا، اہل کشمیر کی فیصلہ کن مدد کرنا مشکل نہیں ہے لیکن یہ سب کرنا تو درکنار وہ مودی کو کرفیو اٹھانے پر مجبور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ مغربی میڈیا بھی ایسا ہی کررہا ہے۔ کشمیر پر اداریے لکھے جارہے ہیں، رپورٹیں شائع ہورہی ہیں، تبصرے کیے جارہے ہیں، مسئلہ کشمیر کو خوب اجاگر کررہا ہے۔ ایسا وہ انسانی ہمدردی کے تحت نہیں کررہا ہے بلکہ اس لیے کررہا ہے کہ مغربی حکومتیں بھی ایسا ہی کررہی ہیں اور آزاد مغربی میڈیا اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ ان کی کوریج اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کو فروغ دینے کے لیے ہوتی ہیں۔ لہٰذا عمران خان کا یہ کہنا کہ مغربی میڈیا کشمیر کو کوریج نہیں دے رہا غلط اور حقائق کے منافی ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی مسئلہ کشمیر کو خوب کوریج دے رہا ہے مغربی میڈیا بھی دے رہا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی اہل کشمیر کے لیے عملی طور پر کچھ نہیںکررہی۔ مغربی حکومتیں بھی ایسا ہی کررہی ہیں۔ پھر الزام کس بات پر۔ اپنے گریبان میں تو جھانک کر دیکھیے آپ خود کیا کررہے ہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ہر دوسرے تیسرے روز ٹوئٹ کرنا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ مغربی میڈیا کا نمبر تھا دیکھیے اگلی مرتبہ تیروں کا رخ کس طرف ہوتا ہے۔