اگر سیاسی تجزیوں اور پیش گوئیوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سیاسی پیش گوئیاں اور سیاسی تجزیے ایک تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ان دنوں 1996ء میں کی گئی ایک پیش گوئی کا بڑا چرچا ہے۔ پیش گوئی کے مطابق عمران خان ہنگامی طور پر وزیراعظم بنادیے جائیں گے اور ان ممالک کا ایک بلاک بنائیں گے جن کے نام کے آخیر میں ’’ن‘‘ آتا ہے۔ ن تو ہندوستان کے آخیر میں بھی آتا ہے، یوں یہ پیش گوئی بے معنی ہوجاتی ہے کیوں کہ ہندوستان کسی بھی قیمت پر عمران خان کی سربراہی قبول نہیں کرسکتا۔ روزنامہ جسارت کی فائلیں گواہ ہیں کہ ہم نے 1995ء میں کہا تھا کہ عمران خان کی کٹ پر وزارت عظمیٰ درج ہوچکی ہے۔ وزارت عظمیٰ کا قلم دان کب دیا جائے گا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہماری اطلاع کے مطابق تیس سال بعد عمران خان کو وزیراعظم کی مسند پر جلوہ افروز کردیا گیا ہے اور اب وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان جو وزیراعظم عمران خان کی معاون اور خصوصی مشیر ہیں اعتراف کررہی ہیں کہ پارلیمنٹ کی مضبوطی آرمی چیف قمر باجوہ کی مرہون منت ہے۔ جمہوریت کا بول بالا کرنا آرمی قائد کی سیاسی بصیرت کا واضح ثبوت ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے انہی خدمات کے پیش نظر ان کی ملازمت میں تین سال کا اضافہ کرکے فراغ دلی کا ثبوت دیا ہے۔
خاتون اوّل کے لیے جمائما خان کا انتخاب کیا گیا تھا انہوں نے لگ بھگ ایک عشرے تک صبر و تحمل کے ساتھ انتظار کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچیں کہ عمران خان کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر نہیں سو، واپس جانا ہی مناسب سمجھا۔ جمائما خان کے بعد عمران خان نے ریحام خان سے عقدثانی کیا مگر وزارت عظمیٰ ایشو کرنے والوں کو یہ اقدام پسند نہ آیا سو، ریحام خان کو فارغ کردیا گیا۔ سوچ بچار کے بعد مقتدر طبقے اس نتیجے پر پہنچے کہ من حیث القوم پاکستانی پیروں کے بہت معتقد ہیں اس لیے بشریٰ بی بی کا انتخاب کرکے رابعہ بصری بنانے کی تگ و دو کی گئی مگر یہ انتخاب بھی غلط ثابت ہوا کیوں کہ پاکستانی کسی ایسی شخصیت کے معتقد نہیں ہوسکتے جو اپنے مرید کو سر کا تاج بنالے، یہاں بھی کامیابی کے امکانات مدھم دکھائی دیے تو عمران خان کو عصر حاضر کا قلندر بنانے پر توجہ دی گئی اور اس کام کے لیے بھارت کے ایک نام نہاد عالم کو آگے لایا گیا ان حضرت کے ارشادات کے مطابق نبی پاکؐ نے یہ بشارت دی کہ عمران خان کو پاکستان کا وزیراعظم بنادیا گیا۔ اب پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں کو ان کے خواب کی تعبیر مل جائے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص کسی کو مرتد بنانے کا ذمے دار ہو وہ نبی کریمؐ کا منظور نظر کیسے ہوسکتا ہے۔ بھارتی عالم کے خواب کو اہمیت دینے والوں کی کمی نہیں، حالاں کہ ایسے نام نہاد علما نے قائد اعظم کی وفات کے بعد ایسے ایسے خواب بیان کیے تھے جو قابل بیان ہی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلامی سربراہ کانفرنس اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلام کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ قابل تحسین ہے مگر ان کے قول و فعل پر غور کیا جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ عمران خان اپنی ذات کے سوا کسی سے محبت نہیں کرتے، کسی سے عقیدت نہیں رکھتے۔ خان صاحب نے ایک تقریر میں صحابہ کرام کے حوالے سے جو گل فشانی کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلام سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ عمران خان صحابہ کرام ہی کی شان میں گستاخی کے مرتکب نہیں ہوئے وہ قرآن کریم میں تحریف کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ کہتے ہیں قرآن کریم میں سیدنا عیسیٰؑ کا ذکر ہی نہیں مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار ہیں۔ مگر حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ نہیں عمرانی جمہوریہ ہے۔