گزشتہ اپریل میں امرتسر کے جلیانہ والا باغ میں قتل عام کی ایک سویں برسی پر برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مے نے پارلیمنٹ میں اس سانحہ پر تاسف کا اظہار کیا تھا لیکن انہوں نے برطانیہ کی طرف سے معافی نہیں مانگی تھی۔ البتہ برطانیہ کے مذہبی پیشوا، آرچ بشپ آف کنٹربری نے جلیانہ والا باغ میں برطانوی فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے والے پانچ سو افراد کی یاد گار کے سامنے زمین پر لیٹ کر تعزیت کی تھی اورکہا تھا کہ میں شرم سار ہوں کہ اس باغ میں برطانوی فوج کے ہاتھوں بے قصور افراد لقمہ اجل بنے۔
بلا شبہ جلیانوالہ باغ میں بیساکھی کا تہوار منانے والوں کا قتل عام ایک ہولناک سانحہ تھا، لیکن اس سے کہیں زیادہ ہولناک ظلم انگریزی راج میں سندھ میں ہوا تھا جہاں سورھیہ بادشاہ پیر پگارو صبغت اللہ شاہ راشدی دوم شہید کی قیادت میں حروں اور سندھ کے عوام نے لگا تار تیرہ سال تک سر زمین سندھ کی آزادی کے لیے مسلح جنگ لڑی تھی جس کے دوران پیر جو گوٹھ میں درگاہ شریف اور پیر پگارو کے جانثار حروں کے مرکز گرنگ بنگلو پر انگریزوں نے بمباری کی تھی اور اسے مسمار کر دیا اور کئی ہزار حروں کو گرفتار کر لیا تھا جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ 1930 سے 1943 تک برطانوی راج نے سندھ میں آزادی کی جنگ میں پیش پیش حروں کا قلع قمع کرنے کے لیے استبدادی قوانیں منظور کیے تھے ان میں Hur Suppression Act سب سے زیادہ ظالمانہ قانون تھا جس کے تحت حروں کو مجرم قبیلہ قرار دیا گیا تھا۔ 1942 سے 1943 کے آخر تک سندھ میں مارشل لا نافذ کیا گیا جس کے دوران حکام کو مشتبہ حروں کو دیکھتے ہی گولی سے اڑا دینے کا اختیار تھا۔ مارشل لاکے دوراں سیکڑوں سندھی شہید ہوئے جن کے ناموں اور ان کی تعداد کا حکومت نے کہیں کوئی اندراج نہیں کیا۔ یہ سندھی شہید گم نام ہی رہے۔
ہندوستان میں انگریزی راج کو سب سے زیادہ خطرہ سندھ سے تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ سندھ نے کبھی انگریزی راج کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ پاکستان کی تحریک سے قبل سید احمد شہید بریلوی کی قیادت میں ’’جہاد‘‘ میں سندھ کے عوام پیش پیش رہے تھے اور اٹھارہ سو ستاون کی پہلی جنگ آزادی میں سندھ نے بھر پور حصہ لیا تھا۔ تحریک خلافت میں سندھ اس تحریک کا ایک اہم گڑھ تھا۔ اس کے بعد انگریزی راج کے خلاف ’’ہجرت‘‘ کی تحریک میں سندھ کسی سے پیچھے نہیں رہا تھا بے شمار سندھیوں نے اپنی زمینیں اور جایداد فروخت کر کے اپنے اہل و عیال سمیت افغانستان ہجرت کی تھی۔ بمبئی سے سندھ کی علیحدگی کی تحریک میں بھی سندھیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور یہ سندھ اسمبلی تھی جس نے سب سے پہلے 1943 میں پاکستان کے قیام کی قرارداد منظور کی تھی جس کے محرک جی ایم سید تھے۔ انگریزی راج اسی بنا پر سندھ سے بے حد خائف تھا اور اسی وجہ سے انگریزی راج نے سندھ میں حروں کی تحریک کو کچلنے کے لیے ہر قسم کے ظلم و ستم کا پہاڑ توڑا تھا۔
1941 میں حروں کی جنگ آزادی اپنے عروج پر تھی تو اکتیس سالہ پیر پگارو کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں سندھ سے باہر دور مدھیہ پردیش میں سیونی کے شہر میں قید کر دیا گیا۔ سورھیہ بادشاہ کی گرفتاری نے حروں میں انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی آگ اور بھڑکا دی اور انہوں نے سرکاری عمارتوں اور، پولیس اسٹیشنوں پر بڑے پیمانہ پر حملے شروع کر دیے اسی دوران حروں نے 1942 میں لاہور میل کو پٹڑی سے الٹاکر پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔
1943 میں پیر پگارو کو سیونی سے حیدرآباد سندھ کے جیل میں منتقل کردیا گیا جہاں ایک جھوٹے مقدمہ میں انہیں پھانسی کی سزا دی گئی اور حیدر آباد جیل ہی میں انہیں دار پر چڑھا دیا گیا۔ اس وقت پیر پگارو کی عمر 33 سال تھی۔ سورھیہ بادشاہ کی جان لینے کے بعد انگریزوں نے سندھ کے عوام کے ساتھ ایک اور ظلم یہ کیا کہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے مجاہد اور روحانی پیشوا کا جسد خاکی کہاں دفن کیا گیا ہے۔ انگریزوں کو ڈر تھا کہ کہیں پیر پگارو کے مدفن کی جگہ انگریزوں کے خلاف جدو جہد کا مرکز نہ بن جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی میت کو سمندر میں غرق کردیا گیا تھا۔
سندھ میں برطانوی راج کے اس ظلم و ستم پر پچھلے ستر سال کے دوران پاکستان کی کسی حکومت اور پاکستان کے کسی رہنما کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ برطانوی حکومت سے مطالبہ کرے کہ برطانیہ سندھ کے ساتھ اس ظلم و ستم پر معافی مانگے۔ اس کے برعکس پاکستان کے حکمرانوں نے بڑے فخر و انبساط کے ساتھ برطانوی دولت مشترکہ میں شمولیت اختیار کی اور برطانیہ کے ساتھ فوجی معاہدوں میں ساتھ دیا۔
اب برطانیہ کی ملکہ کے پوتے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈل ٹن کی پاکستان میں شاہانہ انداز سے پزیرائی ہوئی ہے اور شاہی جوڑے کے ملبوسات کی نمائش کا ملک گیر پیمانہ پر جشن منایا گیا ہے۔ بلا شبہ پاکستان کے عوام مہمان نواز ہیں اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں جیسے کہ پوری دنیا میں اسے بدنام کیا جارہا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس موقع پر پاکستان، برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ کرتا کہ شاہی جوڑے کے دورے سے پہلے سندھ میں برطانوی دور کے ظلم و ستم اورسورھیہ بادشاہ کی شہادت اور سیکڑوں حروں اور حر خواتین کی ہلاکت پر معافی مانگے۔ اس اقدا م کے لیے قومی عزت وقار اور اپنی تاریخ سے باخبری اور اس پر فخرو افتخار درکار ہے جس کا افسوس ہے کہ اس وقت پاکستان میں فقدان ہے۔ ایسے میں کون سندھ پر ظلم واستبداد پر معافی مانگے گا؟