یہ امر مبرہن ہے کہ طالبان کی تحریک اور حکومت جماعتی و محلاتی سازشوں، تخریب کاری ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے کے دائو پیچ اور تمام تر داخلی مناقشات سے پاک تھی۔ پوری تحریک و حکومت تابع قانون و نظام تھی۔ امیر کی اطاعت کی پوری طرح پابندی ہوتی۔ افغانستان کی تاریخ میں بادشاہتیں اور حکومتیں اندرونی سازشوں، مخالفین کو مارنے، اقتدار پر قبضہ اور جبری جلا وطنی و قید و بند سے عبارت ہے۔ قریب کی تاریخ میں ظاہر شاہ اپنی بادشاہت میں شاید ہی کسی دن کامل سکون و راحت سے رہا ہو۔ اُنہیں خاندان کے اندر اور باہر اقتدار چھین جانے کے خطرات نے ہمہ وقت گھیر رکھا تھا۔ شاہ کے دور میں ایک اہم حکومتی عہدیدار عبدالملک عبدالرحیم زئی بغاوت کے الزام میں حراست میں لے لیے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ سال 1957ء میں عید الاضحیٰ کے دن بغاوت بپا کی جانی تھی۔ اس کے لیے وقت عین نمازِ عید کا چنا گیا تھا۔ عبدالرحیم زئی کمیونسٹ بغاوت کے بعد ببرک کارمل کی حکومت میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی نشاندہی اور مطالبے پر رہا کر دیے گئے۔ گویا طویل عرصہ (غالباً 23 برس) پابند سلاسل رہے۔ دراصل کمیونسٹ اس مبینہ بغاوت میں شامل افراد کو راستے سے ہٹانا اور ان کی سرکوبی و قید چاہتے تھے۔ سردار دائود خان اور پرچمی گروہ کے درمیان ہم آہنگی تھی۔ ظاہر شاہ حصار میں لیے گئے تھے۔ ظاہر شاہ کی بے بسی کی ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ 1970ء میں ایک روسی حکومتی عہدیدار ’’الکسی کا سیگین‘‘ شاہ کی دعوت پر کابل پہنچے ائر پورٹ پر استقبال کرنے والوں کی قطار میں ببرک کارمل (سابق افغان صدر) بھی کھڑے تھے۔ مہمان جب شاہ کے قریب مصافحہ کے لیے پہنچے، تو اس اثناء ببرک کارمل نے فارسی میں ’’زندہ باد رہبران شوروی‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ یعنی شاہ کی موجودگی میں صَریح توہین، بے باکی و بے حیائی کا ارتکاب کیا۔ شاہ نے ببرک کارمل کی جانب محض تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا۔ مزید بازپرس کی ہمت ان میں نہ تھی کیوں کہ ان سب کی پشت پر سویت یونین کی طاقت موجود تھی۔ نیز 1970ء ہی میں سرکشی کا ایک اور واقعہ پیش آیا جب اس وقت کے امریکی صدر کے معاون ’’سپیریو اگرینو‘‘ کابل کے دورے پر تھے۔ کابل کے ’’چھلستون ہائوس‘‘ جاتے ہوئے سڑک پر ڈاکٹر نجیب اللہ (سابق افغان صدر) کی قیادت میں چند نوجوانوں نے اُن پر غلاظت وگند پھینکا۔ یہ لوگ گرفتار ہوئے مگر مزید شاہ کا ان پر بس نہیں چلا۔ آخر کار ظاہر شاہ محلاتی سازش کا شکار ہو ہی گیا۔
شاہ کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی سردار دائود خان نے جولائی 1973ء میں ان سے اقتدار چھین لیا۔ شاہی خاندان کے اندر سے بغاوت روس اور افغان کمیونسٹوں کے تعاون سے کامیاب ہوئی۔ اقتدار پر قبضے کی خوشی روس میں بھی منائی گئی۔ سردار دائود بھی کانٹوں کے سیج پر بیٹھے ہوئے تھے البتہ قوی ارادے و اعصاب کے مالک تھے۔ کمیونسٹوں اور روسیوں کے فریب میں مبتلا تھے۔ ایک محب وطن و قوم پرست محمد ہاشم میوند وال کو 1973ء میں بغاوت کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ کمیونسٹ ہاشم میوند وال کے درپے تھے۔ چناںچہ سیاست، بیوروکریسی اور فوج سے کئی بڑے لوگ جیلوں میں ڈالے گئے۔ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ یہاں تک کہ ہاشم میوند وال کی لاش غائب کر دی گئی۔ گویا یہ سب ’’پرچمیوں‘‘ کی خواہش کے تحت ہوا۔ سردائود خان نے ملک کی خودمختاری اور روسی اثر سے نکلنے کی پالیسی اپنائی۔ تمام ہمسائیہ ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، خاص کر پاکستان سے۔ اورکمیونسٹوں سے دوری اختیار کر لی، کابینہ سے انہیں نکال باہر کیا۔ اس طرح روس اور افغان کمیونسٹوں کی ریشہ دوانیاں مزید اُبھر آئیں۔ بالآخر27اپریل 1978ء میں کمیونسٹوں نے فوجی یلغار کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سردار دائود کو خاندان سمیت قتل کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر مخالفین کی سرکوبی شروع کردی۔ نامور سیاستدان، قبائلی معتبرین، علماء و عظام بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتار ے گئے۔ کمیونسٹ رجیم کے خلاف افغان عوام اُٹھے تو ان سمیت روسی بھی پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ اور خود کمیونسٹ دھڑے بھی آپس میں گتھم گتھا رہے۔ ایک دوسرے کو قتل کرتے۔ جیلوں میں ٹھونسے جاتے۔ یا غائب کر دیے جاتے۔ سرکردہ کمیونسٹ رہنما ایک دوسرے کی جان کے درپے تھے۔ ایک روسی جنرل ’’بوریس گروموف‘‘ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ماسکو کے اندر ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں طے پایا گیا کہ ’’نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کو ان کی غلطیاں بتائی جائیں جو اب تک مخالفین کو قتل کرتے جا رہے ہیں۔ ترکئی کو بتایا جائے کہ وہ اپنی تیکنیک تبدیل کریں اور زور، دبائو اور اجتماعی قتل کی حکمت عملی ترک کردے‘‘۔ نور محمد ترہ کئی نے جواب میں عذر پیش کیا کہ استاد کبیر ولادمیر لینن بھی مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتارتے تھے۔
(جاری ہے)
روسی افغان کمیونسٹوں کو احمق کہا کرتے تھے۔ اور یہ احمق پوری طرح روسیوں کے تابع مہمل تھے۔ مثلاً سلیمان لائق افغانستان کے صف اول کے کمیونسٹ رہنمائوں میں سے تھے۔ کمیونسٹ قبضہ کامیاب ہوا تو ریڈیو کابل پر ان ہی کا لکھا ہوا انقلابی ترانہ گایا گیا۔ اسے صدر حفیظ اللہ امین نے زندان میں ڈال دیا تھا۔ جیل میں پرچم پارٹی کے کسی وابستہ نے انہیں کہا کہ ’’آپ نے خلق اور پرچم دونوں کو راضی رکھنے کی پالسی اپنا رکھی ہے‘‘۔ سلیمان لائق نے جواب دیا کہ ’’مجھے پرچمیوں نا ہی خلقیوں کی پروا ہے، میں فقط ’’پوزانوف‘‘ (کابل میں تعینات روسی سفیر) کی ہدایات کا پابند ہوں‘‘۔ غرض حفیظ اللہ امین نے کمیونسٹ انقلاب کے رہبر نور محمد ترہ کئی کو مار ہی ڈالا۔ اور خود افغانستان کے صدر بن گئے۔ حفیظ اللہ امین کو سرکش پا کر روسی افواج نے براہ راست ’’قصرِدارلامان‘‘ پر حملہ کیا۔ اور ان کو بیٹے اور صدارتی دستے سمیت بھون ڈالا سب کی لاشیں غائب کر دی گئیں۔ زندان میں پھینکے گئے۔ حتیٰ کہ امین کی خواتین خود پل چرخی جیل میں گرفتاریاں دینے گئیں تاکہ قتل سے محفوظ رہ سکیں۔ بعد میں یہ خواتین کوئٹہ پہنچ گئیں۔ امین کے قتل کے بعد ببرک کارمل کو صدارت کی کُرسی سنبھالنے کے لیے بھیجے گئے۔ ایک افغان مصنف محمد اسحاق الکو لکھتا ہے کہ ’’ایک بار ببرک کارمل دیر تک دفتر میں بیٹھا رہا۔ باہر کھڑے محافظ کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہوا تو اس نے اندر جاکر صدر ببرک کارمل کو کہا کہ اب آپ گھر تشریف لے جائیں تاکہ میں بھی گھر جائوں‘‘۔
طالبان نے اپنی حکومت اور مزاحمت کے اس طویل دور میں بھی اس طرح کی کوئی نظیر نہیں چھوڑی ہے۔ ان کی جماعت اور حکومت میں خلاف قانون و شرع کوئی عمل ہوتا تو بلا لحاظ محاسبہ ہوتا۔ عدل و انصاف کا معاملہ ہوتا۔ خواہ کوئی ادنیٰ منصب کا ہو یا اعلیٰ تمیز نہیں کی جاتی تھی۔ ملا داد اللہ تحریک کے بانی اراکین میں سے تھے۔ ان کے خلاف شکایات آئیں تو ملا محمد عمر نے بلا پس و پیش فوری احتساب کیا۔ تحریک کے اوائل میں جب پاکستان کے چمن سے متصل افغان ضلع سپن بولدک کے گمراہ و سرکش کمانڈروں کے خلاف کاروائی ہوئی تو ملا داد اللہ ہی تھے جنہوں نے آر پی جی کا پہلا فائر کیا تھا۔ اس طرح جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بعد کے ایام میں بھی ملا داد اللہ نے نمایاں عسکری کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک تجربہ کار اور با اعتماد رہنما و کمانڈر تھے۔ ان کی فتوحات اور بہادری کی مثالیں دی جاتیں۔ ملا محمد عمر کو شکایتیں موصول ہوئیں کہ ملا داد اللہ بے رحم ہو گئے ہیں۔ تحریک کے اصول و روایات کو پامال کرتے ہیں۔ بہت بے لحاظ اور مغرور ہیں۔ چنانچہ ملا محمد عمر نے وزارت دفاع کو حکم دیا کہ ملا داد اللہ کو فوری غیر مسلح کیا جائے۔ جب اُسے امیر کے حکم سے آگاہ کیا گیا تو فوراً ہی تعمیل کر دی۔ اپنے ماتحت سپاہیوں کو بلند آواز میں کہا کہ امیر نے حکم دیا ہے کہ اسلحہ و گاڑیاں وزارت دفاع کے حوالے کی جائیں۔ ملا داد اللہ نے اپنی ذاتی پستول تک حوالے کر دی۔ اگلے ہی دن وہ ساری گاڑیاں اور اسلحہ کابل سے قندھار منتقل ہوئیں۔ چھ ماہ بعد بڑے علماء نے ملا محمد عمر سے ان کی خطاء معاف کرنے کی درخواست کی۔ ملا محمد عمر نے ان کی درخواست مان لی۔ مگر کہا کہ آئندہ ملا داد اللہ خود سری اور اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کریں گے۔
افغانستان پر امریکی و ناٹو فوج کے حملے اور قبضے کے بعد جب طالبان کی پوری قوت ٹوٹ گئی۔ منشتر ہو گئی تب بھی ان کے درمیان الگ الگ دھڑوں کی نوبت نہ آئی۔ اور غیر ملکی افواج اور قبضے کے خلاف قیادت کی پکار سنی تو تنظیم جڑنے اور منظم ہونے میں دیر نہ لگی۔ ملا محمد عمر کے انتقال کے بعد امارت کے مسئلے پر اختلاف کی بازگشت ضرور ہوئی لیکن شوریٰ اور اعلیٰ قیادت کے فیصلے کے بعد مزید اختلاف کو ہوا دینے کی جرات کسی کو نہ ہوئی۔ نہ ہی قیادت نے تحریک کو کسی کے خاندان کے لیے مخصوص کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ ملا اختر منصور کو قیادت کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ ملا اختر منصور کے امریکی ڈرون حملے میں قتل کے بعد مولوی ہبتہ اللہ اخوندزادہ اس بڑی سیاسی و عسکری تنظیم کے امیر مقرر ہوئے۔ گویا تحریک خاندان اور نہ ہی شخصیات کے حصار میں ہے۔ ملا محمد عمر غلزئی قبائل کی شاخ ہوتک سے تعلق رکھتے تھے۔ ملا اختر منصور درانیوں کے اسحاق زئی قبیلہ سے تھے۔ جبکہ مولوی ہبتہ اللہ اخوند زادہ درانیوں کے قبیلہ نورزئی سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان کی تحریک ہر قسم کے تعصبات سے پاک تھی اور ہے۔ ان کی حکومت میں شوریٰ کے اندر اہل تشیع بھی نمائندگی رکھتے تھے۔ امریکی قبضے کے بعد داعش جیسے گروہوں کو اجازت نہ دی کہ وہ نسلی اور مسلکی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنائیں۔ بلکہ وقتاً فوقتاً ان گروہوں کی سرکوبی کی ہے۔ علی الخصوص اپنی تحریک کے اندر فرقہ واریت کو جگہ نہیں دی۔ کشمیر کی مسلح تنظیموں کے افراد جن کے ساتھ پاکستان کی ایک فرقہ پرست تنظیم سپاہ صحابہ کے لوگ بھی تھے کو غالباً 1997 یا 1998میں اپنے ملک سے نکال دیا۔ ملا محمد عمر ا س طرح کی تنظیموں کے قطعی حامی نہ تھے۔ پاکستان کے معروف عالم دین مولونا یوسف لدھیانوی (18 مئی 2000ء) کے کراچی میں قتل کے سانحہ نے ملا محمد عمر کو بہت مغموم و رنجیدہ کردیا تھا۔ ملا محمد عمر مرحوم نے طیب آغا (قطر کے سیاسی دفتر کے سابق سربراہ) کو وائرلس سیٹ پر کہا کہ سپاہ صحابہ والوں سے کہو کہ خدا تم لوگوں کو تباہ کر دے، تم لوگوں کی وجہ سے امت کی سطح کے علماء شہید ہو رہے ہیں۔ (جاری ہے)