ایف اے ٹی ایف اور پاکستان

200

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پاکستان کو مزید چار ماہ کی مہلت دے دی ہے اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے حکومت کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کا مقدمہ بھارت ایف اے ٹی ایف میں لے کر گیا تھا۔ بھارت کی درخواست پر اس عالمی ادارے نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرلیا۔ گرے لسٹ کا مطلب ہے ان مشکوک ملکوں کی فہرست جن پر دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے یا اس سلسلے میں سہولت کاری کا شبہ کیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے کم و بیش تیس مطالبات کی فہرست پیش کردی جنہیں پورا کرنا حکومت پاکستان کے لیے لازم قرار دیا گیا۔ آگے چلنے سے پہلے آئیے ایک نظر ایف اے ٹی ایف پر بھی ڈال لیتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نامی یہ ادارہ دراصل اقوام متحدہ کی ایک ذیلی تنظیم ہے جس کا مقصد پوری دنیا میں دہشت گردوں کے مالی وسائل منجمد کرنا اور حکومتوں کے ذریعے اس کی روک تھام کرنا ہے، جن ملکوں پر شبہ ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں انہیں مالی معاونت فراہم کررہے ہیں انہیں ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ڈال کر اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے اور اس سلسلے میں مختلف اقدامات تجویز کرتا ہے جن میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی، ان کے لیڈروں کی گرفتاری، ان کی جائداد اور اثاثوں کی ضبطی، ان کے بینک اکائونٹس کو منجمد کرنا اور منی لانڈرنگ کی تمام ممکنہ صورتوں کا سراغ لگانا شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے ابھی تک دہشت گردی کی کوئی جامع اور متعین تعریف نہیں کی ہے جب کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں آزادی کی مسلح تحریکوں کو جائز اور مظلوم قوموں کا حق قرار دیا گیا ہے لیکن ایف اے ٹی ایف کے نزدیک ہر قسم کی مسلح جدوجہد دہشت گردی کی تعریف میں آتی ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے جس طرح مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپا لگایا ہے ایف اے ٹی ایف کو اس سے مکمل اتفاق ہے اس کے نزدیک مسلمانوں کی وہ تمام تنظیمیں جو جہاد پر یقین رکھتی ہیں اور ماضی میں جہادی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں۔ یا اب بھی ہیں، دہشت گردی کی تعریف پر پوری اُترتی ہیں اور اُن پر پابندی لگنی چاہیے۔ چناں چہ پاکستان کے خلاف بھارت کی شکایت کے بعد ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو شکنجے میں کس لیا ہے، اس نے ازسرنو ان تنظیموں پر پابندی لگوادی جو نائن الیون کے بعد پہلے ہی کالعدم قرار پاچکی تھیں، البتہ ان سے وابستہ افراد کو آزادی میسر تھی اب ان کی آزادی بھی سلب کرلی گئی ہے، ان کے بینک اکائونٹس منجمد کردیے گئے ہیں اور ان کے اثاثے بحق سرکار ضبط کرلیے گئے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حافظ محمد سعید کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انہیں گھریلو اخراجات کے لیے اپنا بینک اکائونٹ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر کم و بیش تین سو پرائیویٹ فلاحی اداروں پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو شبہ تھا کہ ان اداروں کے ذریعے دہشت گردوں کو سپورٹ کیا جارہا تھا، حالاں کہ یہ ادارے پاکستان میں لاکھوں یتیموں، بیوائوں اور مسکینوں کی کفالت اور غریبوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کررہے تھے۔
حکومت پاکستان اپنے قومی مفادات کے برعکس ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر اس لیے عمل کرنے پر مجبور ہے کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو یہ عالمی احتسابی ادارہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال کر اس کی معیشت کو بالکل مفلوج کردے گا، بیرونی سرمایہ کاری بالکل رُک جائے گی، بین الاقوامی تجارت پر پابندیاں لگ جائیں گی، دوطرفہ اقتصادی معاہدے معطل ہوجائیں گے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ اس قدر گر جائے گا کہ ہم اندازہ بھی نہ کرپائیں گے، درآمدات و برآمدات کا توازن بھی بُری طرح بگڑ جائے گا اور ملک میں مہنگائی اتنی بڑھ جائے گی کہ لوگ بلبلا اُٹھیں گے۔ ان ممکنہ حالات میں حکومت پاکستان
کے لیے ایف اے ٹی ایف کی فرمانبرداری کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کے خلاف بھارت کی شکایت کے جواب میں پاکستان کو بھی بھارت کے خلاف ایف اے ٹی ایف میں جانا چاہیے تھا اور اس پر دہشت گردوں کی فنانسنگ کا مقدمہ دائر کرنا چاہیے تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کررہا ہے، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس اس کے ناقابل تردید ثبوت ہونے چاہئیں۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ ایم کیو ایم کو دہشت گردی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے لاکھوں پونڈ سالانہ فراہم کرتی رہی ہے اور شاید اب بھی فراہم کررہی ہو، پاکستان میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو بھی بڑا فنانسنگ کا کھلا ثبوت ہے۔ لیکن افسوس ان تمام شواہد کے باوجود پاکستان نے بھارت کے خلاف ایف اے ٹی ایف میں کوئی مقدمہ قائم نہ کیا اور خود دفاعی پوزیشن پر چلاگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت ایف اے ٹی ایف کے محاذ پر پاکستان کو مسلسل دباتا چلا جارہا ہے اور خود اس پر کوئی دبائو نہیں ہے، اگر پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط ماننے کے باوجود اسے خدانخواستہ بلیک لسٹ میں شامل کرلیا گیا تو یہ بھارت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس کا ذمے دار خود پاکستان ہوگا جس نے بھارت پر جوابی حملہ نہیں کیا۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال میں بھی پاکستان کی بزدلانہ سفارت کاری کا عمل دخل ہے، پاکستان جارحانہ سفارت کاری کا مظاہرہ کرتا تو بھارت کو پسپا ہونا پڑتا۔