نوبل کمیٹی نے 2019 کا نوبل انعام برائے امن ایتھوپیا کے جواں سال وزیرِاعظم ابی احمد کو اپنے پڑوسی ملک ایرٹیریا کے ساتھ کئی دہائیوں پر مشتمل سرحدی تنازعات پرامن طور پر حل کرنے کے صلے میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہیں یہ انعام گزشتہ سال جون میں طے پانے والے امن معاہدے کے صلے میں دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ایتھوپیا اور ایرٹیریا کے درمیان 1998 سے 2000 تک ہونے والی جنگ کے علاوہ 20 سال تک جاری رہنے والی سرحدی کشیدگی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ابی احمد کو 100واں امن نوبل انعام 10 دسمبر کو اسٹاک ہوم اور اوسلو میں نوبل انعام اور بارود کے بانی ایلفریڈ نوبل کی برسی کے موقعے پر منعقد ہونے والی ایک پروقار تقریب میں دیا جائے گا۔ ابی احمد کو نوبل امن انعام کے ساتھ نوے لاکھ سویڈش کورونا جو نو لاکھ امریکی ڈالر کے برابر بنتے ہیں بھی دیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ اس مرتبہ کُل 301 ناموں کو نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد کیا گیا تھا جن میں 223 شخصیات تھیں جبکہ 78 تنظیموں کے نام تھے۔
ابی احمد کو امن کے جس عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے اس کا کریڈٹ ان کے ساتھ ساتھ ایرٹیریا کے صدر افورقی کو بھی جاتا ہے جنہوں نے ابی احمد کی جانب سے امن اور دوستی کے بڑھائے جانے والے ہاتھ کو جھٹکنے کے بجائے تھام لیا تھا اور اس طرح کل تک دشمن کہلائے جانے والے ان دو پڑوسی ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے کا ماحول بنا۔ نارویجین نوبل کمیٹی کو امید ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان امن معاہدے سے ایتھوپیا اور ایرٹیریا کے تمام لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ نوبل انعام کے لیے نامزدگی کے اعلان کے بعد ابی احمد کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس انعام سے اتحاد، تعاون اور باہمی بقاء کے ان نظریات کو تقویت ملتی ہے جن کے وزیرِاعظم ابی احمد ہمیشہ سے چمپئن رہے ہیں۔ نوبیل انعام برائے امن جیتنے پر قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ یہ انعام حقیقت میں مشترکہ اور اجتماعی کوششوں کی فتح کی علامت ہے جو ایتھوپیا کے اندر امید کا ایک نیا افق پیدا کرے گا جو قوم کی اجتماعی خوشحالی کا سبب بنے گا۔
یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ ابی احمد ایتھوپیا کے جنوب کے ایک علاقے جیما زوہن میں 1976 میں ایک اورومو نسل کے مسلمان باپ اور ایک امہرہ نسل کی مسیحی ماں کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عدیس ابابا یونیورسٹی سے امن اور سیکورٹی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے، جبکہ وہ لندن کی یونیورسٹی آف گرینچ سے قیادت کی تبدیلی کے موضوع پر ماسٹرز ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اپنی نوجوانی کے زمانے میں انہوں نے الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جد وجہد بھی کی تھی۔ پھر جب الدرغوی دور کا خاتمہ ہوگیا تو انہوں نے مغربی واللاغا میں آصفہ بریگیڈ میں باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کی تھی اور تیزی سے ترقی پاتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوگئے جہاں وہ کافی عرصے تک انٹیلی جنس اور کمیونیکیشن سروس میں فرائض انجام دیتے رہے۔ 1995 میں انہوں نے اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ ہوتے ہوئے روانڈا کی خانہ جنگی میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ انہوں نے 1998 سے لے کر 2000 تک کے ایرٹیریا سے سرحدی تنازعے کے دوران ایرٹیریا کے ان علاقوں میں جاسوسی مشن کی قیادت کی تھی جو اس وقت دشمن فوج کے زیرِ قبضہ تھے۔ ابی احمد نے 2010 میں اورومو پیپلز ڈیموکریٹک آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا جس کے بعد رکن پارلیمان بھی منتخب ہوئے۔ جب پارلیمان کے رکن تھے تو اسی دوران ایتھوپیا کے جیما زوہن علاقے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا تھا۔ انہوں نے اس تنازعے کے پائیدار حل کے لیے ’امن کے لیے مذہبی فورم‘ کے نام سے اپنی عملی کوششوں کا آغاز کیا جس کا نتیجہ فسادات کے خاتمے اور دونوں فرقوں کے درمیان پائیدار ہم آہنگی کی صورت میں نکلا۔ یہ ابی احمد کی امن دوستی اور جمہوری سوچ کا اثر ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن میں حکومت مخالف سیاسی قیدیوں کی رہائی اور مخالف سیاسی جماعتوں اور راہنمائوں سے مذاکرات شامل ہیں وہاں انہوں نے بعض تحفظات اور اندرونی وبیرونی دبائو کے باوجود ایرٹیریا کے ساتھ برس ہا برس سے جاری سرحدی تنازعے کے خاتمے میں کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کیا ہے جس کی آج پوری دنیا معترف ہے۔ابی احمد نوبل انعام کے لیے نامزدگی کے بعد براعظم افریقا کے ان چوبیس رہنمائوں میں شمار ہوگئے ہیں جنہیں اب تک اس اہم عالمی ایوارڈ سے ان کی غیر معمولی خدمات کی بنیاد پر نوازا جاچکا ہے۔