اب تک پاکستان میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا جس کا اہل کراچی سے یہ مطالبہ نہ رہا ہو کہ ’’پاکستانی‘‘ بن جاؤ۔ اب مجھے کوئی یہ سمجھائے کہ پاکستانی بنا کس طرح جاتا ہے۔ مسلمان بننا ہو تو کلمہ پڑھ کر کوئی بھی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔ اسی قسم کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار دیگر مذاہب میں بھی ہوگا۔ دنیوی لحاظ سے کسی بھی ملک کی قومیت حاصل کرنے کے بھی طریقہ کار ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ شرائط ہوتی ہیں جن کو قبول کرکے اور ان شرائط پر پورا اتر کر وہاں کی قومیت حاصل کی جاسکتی ہے لیکن ایک ایسا فرد جو پیدا بھی پاکستان میں ہوا ہو، جو پڑھا بھی یہیں کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہو، جس کے پاس یہیں کے مدارس کے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں بھی ہوں، ڈومیسائل، شہریت یہاں تک کہ اس کے پاس پاکستان ہی کا قومی شناختی کارڈ بھی ہو، مردم شماری کی فہرستوں اور ووٹر لسٹوں میں بھی اس کا نام درج ہو، وہ یہاں پر ملازمت یا کاروبار کرتا ہو پھر بھی اس سے ہر آنے والے حکمران کا بار بار ایک ہی مطالبہ کہ ’’پاکستانی‘‘ بن جاؤ، ایک ایسا مطالبہ ہے جس کو سمجھنے کے لیے آئن اسٹائن کے دماغ سے بھی کوئی بڑا دماغ درکار ہوتا ہوگا۔
گزشتہ دنوں ’’مقتدرہ‘‘ کے کراچی کے ذمے داروں کی جانب سے بھی ایک پریس بریفنگ میں یہ بات بہت شدید الفاظ میں دہرائی گئی تھی کہ (اہل کراچی) پاکستانی بن کر ہی رہنا ہوگا۔ جب بھی میں اس قسم کا شدید تقاضا کسی بھی جانب سے سنتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آخر کیا بات ہے کہ یہ مطالبہ صرف اسی طبقہ آبادی سے کیوں کیا جاتا ہے جس کی مادری زبان ہی وہ ہے جو پاکستان کی قومی زبان کہلاتی ہے۔ ’’مٹی کے بیٹوں‘‘ میں سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہے جس کی مادری زبان ’’اردو‘‘ رہی ہو۔ پاکستان میں کہلائی جانے والی قومی زبان پاکستان میں اس طبقہ آبادی کی مادری زبان ہے جو بد قسمتی سے ’’ہندوستانی‘‘ کہلائے جاتے تھے جو ’’ہندوستانی‘‘ کہلائے جانے پر، پاکستان کی پیدائش کے بعد سے تا دم تحریر نہ تو وہ خوش تھے اور نہ ہی آج تک ایسا کہلایا جانا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ اسی پاکستان کی خاطر اپنا سارا سکھ چین چھوڑ کر اپنے بنائے ہوئے ملک میں آئے ہیں۔
یہی وہ طبقہ آبادی ہے جو اس بات کی خواہش رکھتی تھی کہ جیسے پاکستان میں اور بہت سارے طبقہ ہائے آبادی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں اور پورے پاکستان کو اس پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی پاکستان کی مقتدرہ ہو یا قائم ہونے والی حکومتیں، انہوں نے بہت ساری پہچانوں سے آج تک یہ کہا ہو کہ یہ ساری پہچانیں ختم کرکے تم سب صرف اور صرف پاکستانی بن جاؤ تو پھر آخر اہل قومی زبان سے ہی بار بار یہی مطالبہ کیوں اور کس بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کیا یہ مطالبہ اس بات کی جانب واضح اشارہ نہیں کہ 1947 سے لیکر آج تک پاکستان ان کو پاکستانی ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ وہ سارے اہل قومی (اردو) زبان جن سے بار بار پاکستانی بن جانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے اور مسلسل کیا جارہا ہے ان کا تعلق ایسی سیاسی جماعت سے ہے جو ’’اردو‘‘ بولنے والے ہیں لیکن ان کا طرز عمل اور بہت ساری سرگرمیاں پاکستان سے بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں تو کیا اس بات کو پاکستان نے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان میں جتنے اردو بولنے والے ہیں وہ سب کے سب اسی جماعت کے حامی ہیں؟۔ پاکستان کے طول و عرض میں چند ہزار یا چند لاکھ افراد ایسے نہیں جن کی مادری زبان قومی (اردو) زبان ہو بلکہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ سارے افراد پاکستان کی ہر مذہبی اور سیاسی جماعت میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ پاکستان کے اداروں اور حکومتوں کے اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ ملک کے صدور، سندھ کے گورنرز، اسٹیٹ بینک کے سربراہوں، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان، سینیٹ کے ارکان سے لیکر چیف آف آرمی اسٹاف جیسے عہدوں تک اہل قومی (اردو) زبان موجود رہے بھی ہیں اور اب بھی ان تمام جگہوں پر
اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کررہے ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے لیکر پرویز مشرف تک، یہی سارے افراد اہلِ ’’پاکستان‘‘ سے کہیں بڑھ کر اپنے فرائض منصبی نہایت ذمے داری سے ادا کرتے رہے ہیں تو بالکل بھی بے جا نہ ہوگا۔ اگر کسی سیاسی پارٹی کے ذمے داران، یا اس کے قائد کسی بھی قسم کی غیر ذمے دارانہ باتیں کرتے رہے ہیں تو پارٹی کے سنجیدہ، اساسی اور سب کے سب اعلیٰ عہدیداروں نے اس قسم کی باتوں کو نہ تو قبول کیا ہے اور نہ ہی اندھوں کی طرح اس کی اقتدا کی ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جس قسم کے بیانات یا سرگرمیاں یا نعرے بازی یا تلخ گوئیاں ایک مخصوص پارٹی کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں اسی قسم کی تلخ گوئیاں، غیر ذمے دارانہ باتیں اور سرگرمیاں پاکستان کی ہر بڑی چھوٹی سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کی جانب سے نہ صرف سامنے آتی رہی ہیں بلکہ اب تو شاید ہی کوئی ایک طبقہ آبادی ایسا بچا ہو جہاں سے وہی سب انداز فکر اس سے بھی کہیں زیادہ شدید انداز میں سامنے نہ آرہا ہو۔ اگر میری کہی ہوئی باتوں میں کچھ سچائی لگ رہی ہو تو دست بستہ اتنا عرض ضرور کروںگا کہ اگر اب ہر جانب سے وہی ساری باغیانہ باتیں اور طرز عمل سامنے آتا جارہا ہے اور ہر آنے والا دن پاکستان کے عوام کے لہجوں کو تلخ سے تلخ تر کرتا چلا جارہا ہے تو پھر ہر اس ادارے اور قائم ہونے والی حکومت کو اس بات پر لازماً غور کرنا ہوگا کہ ادارے یا حکومت میں وہ کون سے نقائص یا کمیاں کوتاہیاں ہیں جن کی وجہ سے ساری اکائیاں تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرتی جارہی ہیں۔
ایک جانب مسلسل ایک ہی طبقہ آبادی سے اسی مطالبے کو بار بار دہرانہ کہ ’’پاکستانی‘‘ بن جاؤ اور دوسری جانب کبھی ’’افغانیوں‘‘ اور کبھی ’’پشتینیوں‘‘ کو ایک الگ قومیت کا نام دینا، پنجابیوں کو پنجابی، سندھیوں کو سندھی، بلوچیوں کو بلوچی اور پشتونوں کو پشتون کہہ کر پکار نا۔ بنگالیوں اور بہاریوں کو ان کی پہچان سے یاد کرنا اور بڑے فخر کے ساتھ کشمیریوں کو 72 سال گزرجانے کے بعد بھی کشمیری ہی کہنا، کیا یہ سب عین انصاف ہے، کیا ان سب کے لیے ضروری نہیں کہ وہ یہ ساری پہچانیں ختم کر کے صرف اور صرف پاکستانی کہلائیں؟۔ ایک جانب مقتدرہ اور حکومت کا یہ دباؤ کہ قومی زبان والے اہل زبان پاکستانی بن کر رہیں اور دوسری جانب ایک صوبے کے حاکموں کی لٹکتی ہوئی تلوار کا مسلسل یہ مطالبہ کہ ’’سندھی‘‘ بنو۔
وہی طبقہ آبادی جو خود سندھ کی سب سے چھوٹی اقلیت ہے، اس کا ’’سندھی بنو‘‘ کا مطالبہ ہی عقل و سمجھ سے باہر کی بات لگتا ہے۔ اپنے آپ کو سندھی کہلانے والے سندھ میں چند لاکھ بھی نہیں۔ ان میں نسلاً، سید، قریشی، فاروقی، عثمانی، صدیقی، ہاشمی اور انصاری کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو نسلاً عرب ہیں، لغاری، مزاری، جھکڑانی اور مگسیوں کے علاوہ مکرانی اور بہت سارے قبیلے بلوچوں کے ہیں، لاکھوں راجپوت، رانگھڑ، اور قائم خانی ہیں۔ میمن ہیں، انڈیا کے گجراتی ہیں، کاٹھیاواڑی ہیں، کچھی میمن ہیں، مغل ہیں، لاکھوں کے تعداد میں پٹھان ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں وہ لوگ ہیں جن سے سندھ گورنمنٹ بار بار یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ ’’سندھی‘‘ بنو۔ کیا ایک اقلیت کا اپنے اندر موجود ایک بہت بڑی اکثر یت پر یہ دباؤ ڈالنا کہ وہ ’’سندھی‘‘ بنیں، ایک مذاق نہیں لگتا؟۔
جس طرح سندھی حکمرانوں کا چھوٹی سی اقلیت میں ہونے کے باوجود بھی اپنی اکثر یت سے بار بار یہ کہ کہنا کہ سندھی بنو اسی طرح مقتدرہ یا پاکستان کے حکمرانوں کا اہل قومی (اردو) زبان سے بار بار یہ کہنا کہ ’’پاکستانی‘‘ بنو، اس لیے سمجھ سے باہر لگتا ہے کہ کیا پاکستان میں اہل قومی (اردو) زبان کے علاوہ بھی کوئی پاکستانی ہے؟۔ اور اگر تمام تر پہچانوں کے ساتھ پاکستان کا ایک ایک بچہ پاکستانی ہے (اور ہے) تو پھر ان میں اول درجہ پر اہل قومی (اردو) زبان ہی آتے ہیں اس لیے کہ پاکستان بنانے کی جد وجہد میں نہ صرف ان کی بے شمار قربانیاں ہیں بلکہ وہ جس زبان کو سرحد کے اْس پار سے اِس پار لے کر آئے تھے، وہی پاکستان کی قومی زبان بنی اور پاکستان سے باہر پاکستانی ہونے کی واحد پہچان اور تقریباً ڈھائی ارب انسانوں اور درجنوں سے زیادہ ملکوں کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ یہی ہماری قومی زبان (اردو) ہے۔