وہ مال غنیمت جو جنگ سے پہلے ہی حاصل کرلیا گیا

299

بابا الف کے قلم سے
عمران خان کی حکومت اپنی ملک الموت آپ ہی ہے۔ نجانے کیوں مولانا فضل الرحمن علیہ الرحمہ کا آزادی مارچ اس حوالے سے موضوع بحث ہے۔ خان صاحب کے وعدے میدان عمل میں شاہی ٹکڑے تو کجا بینگن کا بھرتا بھی ثابت نہ ہوسکے۔ انہوں نے سر سے سریا توڑنے کے جو سبز باغ دکھائے تھے وہ اب میلوں دور سے کالا باغ نظر آرہے ہیں۔ عمران خان کو حکومت سونپی گئی تو ان کی گردن اور حریفوں کے ہاتھوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ تھا لیکن انہوں نے ایک سال بعد ہی اپنے اقتدار کو نیازکی دیگ بنادیا، دیوبند مکتب فکر سے وابستہ ہونے کے باوجود مولانا فضل الرحمن بھی جسے لوٹنے کے لیے بے چین ہیں۔ پاناما پیپرز ان کے سب سے طاقتور حریف نواز شریف کے باب میں آل کلیئرکا سگنل تھے، ابّا جی بھی تمام تر عسکری نقاروں کے ساتھ سیاسی مصروفیات اور بیرونی دوروں میں ہاتھ بٹانے کے لیے ان کے ساتھ تھے لیکن نااہلی نے ان کی حکومت کو کپڑے کی ایسی گڑیا بنادیا جس کے اندر روئی ہی روئی ٹھنسی ہو۔ فن اور پیشے کے اعتبار سے وہ قوال جنہیں حکومتی ٹولہ کہا جاتا ہے انہوں نے حکومت کو جس طرح خراب وخوار کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے مولانا بلاوجہ مہم جوئی کا تردد کررہے ہیں، اک ذرا انتظار، حکومت گرانے کے لیے اس کے وزراء ہی کافی وشافی ہیں۔
تحریک انصاف کرکٹر عمران خان سے نوجوانوں کے رومانس کا نام تھا۔ ان کی شخصی وجاہت ان تمام جھوٹوں پر غالب آگئی جو کسی بھی مضبوط ترین چھت کو گرا سکتے تھے۔ وہ نوجوانوں میں یہ تاثر پختہ کرنے میں کامیاب رہے کہ شریف خاندان اور زرداری وہ بد عنوان ہیں جن کی وجہ سے ملک مسائل کا شکار ہے۔ وہ سایے جو اہل سیاست کے حریف تھے انہوں نے عمران خان کی اس کڑک چمک کو قیامت بنادینے کا فیصلہ کرلیا۔ نواز شریف عدالتوں کی طعن وتشنیع اور منصفی کا ہدف بنادیے گئے۔ دوسری طرف ساری رونقیں عمران خان کے جلسوں میں جمع کرنی شروع کردی گئیں۔ عمران خان نے بھی ان جلسوں میں اپنے دل کا تمام کینہ، کدورت، بغض وعناد کھول کر رکھ دیا لیکن اسے بھی کرپشن سے پاک ہونے کی علامت باور کیا گیا۔
عمران خان کا مسئلہ کرپشن تھا نہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کرپشن کے بڑے بڑے مہاتما ان کے دوست نہ ہوتے۔ اعظم سواتی جن کی کرپشن کی داستانیں عدالت عظمیٰ تک پھیلی ہوئی ہیں یہ عمران خان کی حکومت ہے جس نے انہیں عدالت عظمیٰ سے بچایا اور پھر دوبارہ وزیر بھی بنادیا۔ عامر کیانی وہ شخص ہے جو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا ذمے دار ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے بجائے اسے پارٹی میں اہم عہدہ دے دیا گیا۔ عمران خان کے رفیق خاص زلفی بخاری کو نیب متعدد مرتبہ نوٹس بھیج چکی ہے لیکن عمران خان کی طرف سے ان پر کوئی دبائو نہیں کہ وہ نیب کے سامنے پیش ہوں۔ جہانگیر ترین کی امارت تک پہنچنے کے لیے کئی نسلیں درکار ہیں۔ عدالت عظمیٰ انہیں چنا جور گرم قرار دے چکی ہے لیکن آج بھی و ہ عمران خان کے محبوب ہیں۔ اس محبوبیت کی قیمت چینی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام ادا کررہے ہیں۔ چودھری گردی ہو، فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال کے معاملات ہوں وہ سب ہی کو کھینچے کھینچے پھرتے ہیں۔ عدالتوں سے دور۔ کہنا یہ ہے کہ عمران خان کا مسئلہ کرپشن نہیں نواز شریف تھے اور اس میں کیا کلام کہ ہماری مقتدر طاقتوں کا مسئلہ بھی نواز شریف ہی تھے۔ اعلیٰ عدالتوں کی انصاف پروری کو ذریعہ بناکر جن کے اقتدار کا خاتمہ کردیا گیا۔
محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رندکا، ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام
جب مولانا کے مارچ کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس ادائے دلبری کے پیچھے کون ہے تو یہ دراصل اس یقین کا اظہار ہوتا ہے کہ عمران خان کے دھرنے کے پیچھے فوج تھی۔ طویل دھرنے میں عمران خان نے جس اخلاقیات کا مظاہرہ کیا، اسے جیسا چاہا اور سراہا گیا، سچے اور کھرے پن سے تعبیر کیا گیا وہ حیران کن تھا۔ مولانا کوشش بھی کریں تو اس کا دس فی صد بھی ان سے ممکن نہیں لیکن ملک کے سارے معززین پریشان ہیں۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان کی سیاست کا ایک منفرد باب ہیں۔ صاحب طرز سیاست دان۔ واعظانہ جرات، مصالحانہ رویہ، مسحور کن خطابت، جلال وجمال کا امتزاج۔ خود کو ناگزیر بنانے کا کمال جیسا مولانا کو آتا ہے پاکستانی سیاست میںاس حوالے سے کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ 2018 کے الیکشن میں ان کی جماعت کی متعدد حلقوں میں شکست پر گمان کیا جارہا تھا کہ مولانا بھی سونامی کی نذر ہوگئے لیکن دیکھ لیجیے ایک سال بعد ہی تمام سیاسی جماعتیں ان کی امامت میں ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔ شکست سے منتشر ہونے کے بجائے وہ ایک بھونچال کا روپ اختیار کر گئے ہیں۔ پنڈی اور آبپارہ سے بہترین تعلقات کے باوجود عمران خان جن کے مقابل منہ بسورتے نظر آرہے ہیں۔ وہ سسٹم جو نجانے کس کس کا سوئچ آف کرکے ترتیب دیا گیا تھا، جس کے سامنے ن لیگ اور پیپلز پارٹی بیچارگی کی تصویر بن گئی ہیں، آج اس کا کوئی حقیقی مد مقابل ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ پیشیوں اور حاضریوں کے گرداب میں پھنسے نواز شریف اور زرداری کو مولانا کے قدم سے قدم ملانے کے سوا کوئی راہ نظر نہیں آرہی۔ عمران خان کا سحر انگیز امیج، قابلیت، گرج چمک اور آکسفورڈ کی ڈگریاں ایک مدرسے کے مولوی کے سامنے گیلی ڈفلی کی دھپ دھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی یہ تمام خوبیاں اپنی جگہ لیکن کیا ان کا آزادی مارچ عمران خان کی غیر مہذب حکومت کو گرانے میں کا میاب ہوسکے گا۔ آزادی مارچ کے نتیجے میں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے دبائو اور مرضی سے آزاد سویلین حکومت کے قیام کی کوئی صورت نکل سکے گی۔ کیا پاکستانی سیاست میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان ہے۔ دینی جماعتیں بڑی سیاسی جماعتوں کی طفیلی بننے کے بجائے مرکزی کردارادا کرسکیں گی۔ دینی سیاسی جماعتوں کی مکمل طاقت کے ساتھ اقتدار میں آنے کی کوئی صورت ظاہر ہو سکے گی۔ پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام ممکن ہوسکے گا۔ کشمیر کی آزادی ممکن ہوسکے گی۔ مہنگائی میں کمی آجائے گی۔ سود اور غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ ہو سکے گا۔ امر یکا کی غلامی اور آئی ایم ایف جیسے اداروں سے نجات کا کوئی امکان نظر آسکے گا۔ عام آدمی کو کوئی بڑا تو کجا چھوٹا ریلیف مل سکے گا۔
ان سوالات میں سے بیش تر کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جن کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ حکومت نے آزادی مارچ سے جس طرح آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کے نتیجے میں مارچ کی کیا صورت بنے گی، وقت ہی بتائے گا۔ مارچ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام لیکن ایک بات طے ہے کئی عشروں سے مقتدر قوتوں کی جانب سے جس طرح دینی سیاسی جماعتوں کو میدان سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی مولانا فضل الرحمن نے ان کوششوں کو ناکام بنادیا ہے۔ دینی سیاسی جماعتوں کو قومی دھارے سے الگ، تن تنہا اور نا مقبول بنانے کی جو کوششیں عمران خان کی صورت بروئے کار لائی گئیں وہ بھی کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی ناکام ہو گئی ہیں۔ نوازشریف سے لے کر بلاول اور زرداری اور اسفند یار ولی تک سب ان ہی مطالبات کی تکرار کررہے ہیں جن کا علم مولانا نے الیکشن کے بعد تن تنہا بلند کیا تھا۔ کئی عشروں سے سیکولر اور لبرل حلقے پاکستان کو ایک سیکولر چھاپ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ دینی حلقے ان کے مقابل پسپائی کی حالت میں تھے اب یہ صورتحال نہیں رہے گی۔ پاکستان کی سیاست میں علماء کے کردار کو تسلیم کیا گیا حکومت کو بار بار علماء سے رجوع کرنے کی کڑوی گولی نگلنی پڑی۔ یہ مولانا فضل الرحمن کی وہ بڑی سیاسی کامیابیاںاور مال غنیمت ہے جو مارچ کی جنگ سے پہلے ہی انہوں نے حاصل کرلیا ہے۔