کہنے والے کہتے ہیں کہ ریاست ’’ماں‘‘ کی طرح ہوتی ہے‘ مگر ہمارے حکمرانوں نے اسے ’’ناں‘‘ کی طرح بنادیا ہے۔ اس ’’ناں‘‘ کی تفصیل رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ آپ ریاست سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم ہمیں مفت تعلیم فراہم کرو گی۔ ریاست کی طرف سے حکمران جواب میں کہتے ہیں ’’ناں، ناں‘‘۔ آپ ریاست سے پوچھتے ہیں کیا تم ہمیں مفت طبی سہولتیں فراہم کرو گی ریاست کہتی ہے ’’ناں ناں‘‘۔ آپ ریاست سے پوچھتے ہیں کیا تم ملک کے سب سے بڑے، سب سے جدید اور ریاست کو سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کراچی کو پانی فراہم کرو گی؟ ریاست کہتی ہے ’’ناں، ناں‘‘۔ آپ ریاست سے پوچھتے ہیں کیا تم کراچی کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتیں فراہم کرو گی؟ ریاست کہتی ہے ناں، ناں۔ آپ پوچھتے ہیں کیا تم کراچی کا کچرا اٹھائو گی؟ ریاست کہتی ہے ’’ناں، ناں‘‘۔ رہی سہی کسر عمران خان کے نفسِ امارہ فواد چودھری نے یہ کہہ کر پوری کردی ہے کہ ریاست عوام کو نوکریاں فراہم نہیں کرسکتی۔ نوکریاں فراہم کرنے کا کام نجی شعبے کا ہے۔ ریاست صرف اس سلسلے میں ’’ماحول‘‘ پیدا کرسکتی ہے۔ یعنی فواد چودھری نے بھی اعلان کردیا ہے کہ ان کی ریاست بھی ’’ماں‘‘ جیسی نہیں بلکہ ’’ناں‘‘ جیسی ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کو ایک کروڑ نوکریوں کا تحفہ پیش کریں گے مگر اب فواد چودھری کہہ رہے ہیں کہ نوکریاں دینا ریاست کا کام تھوڑی ہے۔ ان کے بقول ریاست نے نوکریاں دیں تو ریاست معاشی بوجھ سے دب جائے گی۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ عمران خان نے قوم سے ایک کروڑ نوکریوں کے حوالے سے جھوٹ بولا تھا۔ اسے دھوکا دیا تھا؟ سبز باغ دکھایا تھا یا انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ ریاست کا کام کیا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا اس بار ایک اہم مسئلے پر عمران خان نے خود یوٹرن لینے کے بجائے یوٹرن کا کام فواد چودھری سے لیا ہے۔ دیکھا جائے تو فواد چودھری کے لہجے کا تیقن غیر معمولی ہے۔ اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ہوں یا فواد چودھری ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ یا سرکاری اور نجی مسئلے کے حوالے سے فواد چودھری کا دعویٰ سچا ہے یا جھوٹا ہے؟۔
مغربی دنیا نے گزشتہ ساٹھ ستر سال میں تین ’’عقاید‘‘ یا Myth تخلیق کیے تھے۔ مغرب کا ایک Myth یہ تھا کہ جمہوریت کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ دوسرا Myth یہ تھا کہ بڑی آبادی ایک بوجھ ہے۔ تیسرا Myth یہ تھا کہ ترقی اور خوشحالی کی ضمانت صرف نجی شعبے سے مہیا ہوتی ہے۔ چین نے مغرب کے ان تینوں Myths کے پرخچے اُڑا کر انہیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ چین نے مغربی جمہوریت کے بغیر حیرت انگیز ترقی کرکے دکھا دی۔ چین نے بڑی آبادی کو بوجھ کے بجائے اثاثہ بنا کر دکھا دیا۔ چین نے سرکاری شعبے میں معاشی ترقی و خوشحالی کو ممکن بنا کر دکھا دیا۔ چین کی معیشت کو اس وقت بھی ریاست پوری طرح کنٹرول کرتی ہے۔ چین میں نجی شعبے موجود ہیں مگر یہ نجی شعبے آزاد نہیں ریاست جب چاہتی ہے نجی شعبے کے کان اینٹھ دیتی ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق چین میں برسر روزگار لوگوں کی تعداد 34 کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس میں سرکاری اور نجی شعبے کا حصہ آدھا آدھا ہے۔ مغرب میں صنعتی انقلاب آئے تین سو سال ہوگئے ہیں۔ مغربی ممالک کی معیشت دنیا کی مستحکم ترین معیشتیں ہیں مگر مغرب میں ’’پبلک سیکٹر‘‘ یا سرکاری شعبہ ابھی تک زندہ، توانا اور وسیع ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ناروے کے 30 فی صد برسر روزگار لوگوں کا تعلق ’’سرکاری ملازمین‘‘ سے ہے۔ ڈنمارک میں 29 فی صد لوگ سرکاری ملازم ہیں۔ فرانس میں 22 فی صد لوگ ابھی تک سرکاری ملازمتوں کے حامل ہیں۔ کینیڈا میں 19 فی صد لوگ ابھی تک سرکاری ملازم کہلاتے ہیں۔ پاکستان کی ’’معاشی حقیقت‘‘ یہ ہے کہ پاکستان میں ابھی تک صنعتی انقلاب آیا ہی نہیں۔ پاکستان ابھی تک ایک زرعی ملک ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فواد چودھری نے ملازمتوں کے حوالے سے جو بات کہی ہے وہ بات پاکستان میں صنعتی انقلاب کے 300 سال بعد کہی جانی چاہیے۔
یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ مادی معنوں میں سہی مغرب کی ریاست ’’فلاحی‘‘ ہے وہ جن لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کرسکتی انہیں وظیفے کی صورت میں ’’ہرجانہ‘‘ ادا کرتی ہے۔ فواد چودھری ریاست پاکستان کے شہریوں کو ملازمتیں ہی نہیں دے رہی تو وظیفہ کیا دیں گے؟ آج پاکستان کے جو معاشی حالات ہیں وہ عوام کے پیدا کردہ نہیں وہ جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کی بدعنوانیوں اور نااہلیوں کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ مواقع کے باوجود نہ ملک میں صنعتی انقلاب برپا کرسکا، نہ زرعی شعبے کو فروغ دے سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی 40 فی صد آبادی 2 ڈالر یومیہ سے نیچے کھڑی ہے۔ مزید 20 فی صد آبادی خط غربت سے ذرا اوپر بیٹھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کے 60 فی صد لوگ غریب ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں 12 کروڑ لوگوں کا سہارا صرف ریاست ہے فواد چودھری پوری بے شرمی، بے حیائی، ڈھٹائی اور سفاکی سے کہہ رہے ہیں کہ ریاست ’’ماں جیسی‘‘ نہیں ہے ’’ناں جیسی‘‘ ہے۔ بلاشبہ یہ پاکستانی قوم کے ساتھ ’’معاشی غداری‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے 1947ء سے 1970ء تک مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے ریاست کو ’’ماں جیسی‘‘ بنانے کے بجائے ’’ناں جیسی‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ غربت تو مغربی پاکستان میں بھی تھی مگر مشرقی پاکستان کی غربت مغربی پاکستان کی غربت سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ میجر صدیق سالک نے اپنی تصنیف میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا میں لکھا ہے کہ ایک دن وہ شام کو گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے انہیں بتایا کہ گھریلو کاموں کے لیے دو نوکر رکھ لیے ہیں۔ صدیق سالک نے کہا کہ مگر ہم دو نوکروں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کے جواب میں ان کی بیگم نے کہا آپ فکر نہ کریں جتنے پیسوں میں ہم راولپنڈی میں ایک نوکر رکھتے تھے اتنے پیسوں میں ہم ڈھاکا میں دو لوگوں کو ملازم رکھ سکتے ہیں۔ اس معاشی استحصال کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگالیوں میں علیحدگی پسندی کو فروغ ملا۔ کیا فواد چودھری پاکستان کے غریب طبقے کو پاکستان کے خلاف بھڑکانا، اسے پاکستان سے مایوس کرنا اور اسے نفسیاتی طور پر پاکستان سے کاٹنا چاہتے ہیں؟ کیا فواد چودھری یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان صرف امیروں کا پاکستان ہے غریبوں کا پاکستان نہیں ہے۔ یہ صرف ’’فائیو اسٹار‘‘ زندگی بسر کرنے والے جرنیلوں، سیاست دانوں، بیورو کریٹس، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا ملک ہے۔ پاکستان کے وسائل پر غریبوں اور متوسط طبقے کا کوئی حق نہیں۔
فواد چودھری نجی شعبے کے بڑے قائل ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں کو کس نے اتنا بڑا نجی شعبہ پیدا کرنے سے روکا ہے جو پوری قوم کی ملازمتوں کا بوجھ اٹھاسکے۔ پاکستان میں نجکاری کو شروع ہوئے 20 سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا مگر نجکاری سے ملک میں ملازمتیں بڑھنے کے بجائے کم ہوئی ہیں۔ نجکاری کا عمل اب تک پانچ لاکھ لوگوں کو بیروزگار کرچکا ہے۔ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ حکومت مزید 400 اداروں پر تالا ڈالنے والی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کئی لاکھ لوگ مزید بیروزگار ہونے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں نجکاری بھی کام نہیں کررہی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ چین، سنگاپور اور ملائیشیا کو آمریتوں نے ترقی یافتہ بنادیا۔ امریکا اور یورپ کو جمہوریت نے معاشی ترقی سے ہمکنار کردیا مگر بدقسمتی سے پاکستان کی فوجی آمریت بھی جعلی اور نااہلی ثابت ہوئی ہے اور پاکستان کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے بھی معاشی زخموں نے سوا کچھ نہیں دیا۔ عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر اُبھرے تھے۔ قوم نے ان کا ساتھ بھی دیا مگر ان کی تبدیلی بھی جعلی ثابت ہورہی ہے۔ امریکا، یورپ، روس اور چین نے صنعتی انقلاب کے ذریعے غربت دور کی۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
عمران خان ’’لنگر کے انقلاب‘‘ کے ذریعے غریبوں کی مدد فرما رہے ہیں۔ کوئی عمران خان کو بتائے کہ انسان کو صرف پیٹ بھرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ بیمار بھی پڑتا ہے، اسے مکان، لباس اور تعلیم بھی درکار ہوتی ہے، اس کے لیے روزگار درکار ہوتا مگر عمران خان کا نفس امارہ کہہ رہا ہے روزگار فراہم کرنا ریاست کا کام نہیں۔ یہ کام تو نجی شعبہ کرتا ہے، حکومت تو صرف ماحول پیدا کرتی ہے، مگر عمران خان کی حکومت تو ’’ماحول‘‘ بھی پیدا نہیں کرپارہی۔ وہ صرف ’’ہول‘‘ پیدا کررہی ہے۔ اس کے بیانات اور کارکردگی کہہ رہی ہے کہ ریاست ’’ماں‘‘ کی طرح نہیں ہوتی ’’ناں‘‘ کی طرح ہوتی ہے۔ کبھی کبھی والدین ناخلف بچوں کو عاق بھی کردیتے ہیں، مگر پاکستان کے عوام کی اکثریت نے کبھی ریاست سے ناخلف اولاد والا سلوک نہیں کیا مگر حکمران پھر بھی انہیں عاق کرنے کی سازش کررہے ہیں۔