جھوٹے گواہ اور عدالتوں کی گمراہی

260

 عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ جھوٹے گواہوں نے عدالتی نظام خراب کر کے رکھ دیا ہے، انہیں چھوڑیں گے نہیں۔ یہ ریمارکس انہوں نے سرگودھا میں ایک قتل کیس کے دوران جھوٹی گواہیوں کی وجہ سے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے دیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں گواہ جائے وقوع پر موجود نہیں تھے لیکن انہوں نے جھوٹی گواہی دے کر عدالت کو گمراہ کیا۔ فیصلہ ہوا ہے کہ جھوٹی گواہی دینے والے دونوں افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ ایک بڑی اچھی پیش رفت ہے کہ جھوٹی گواہیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور جھوٹے گواہوں کو سزا دی جائے۔ ویسے تو جھوٹی گواہی دینے کی سزا عمر قید ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کوئی نیا معاملہ ہے۔جھوٹے گواہوںکا نظام تو پاکستان کے قیام سے پہلے ہی عدالتوں میں شروع ہو گیا تھا۔ اس کے حوالے سے درجنوں لطیفے مشہور ہیں۔ کئی ایسے واقعات مشہور ہیں جن کے ہم خود گواہ ہیں یا ہمارے مشاہدے میں یہ واقعات ہیں۔ حیرت ہے جھوٹے گواہوں کے بارے میں اب کیوں سنجیدگی اختیار کی گئی ہے، یہ کام تو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ خیر دیر آید درست آید کے مصداق چیف جسٹس نے خرابی کا نوٹس لیا ہے۔ لیکن کیا خرابی صرف یہی ہے کہ جھوٹے گواہ عدالت کو گمراہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو خرابی یہ ہے کہ جھوٹے گواہ سے عدالت گمراہ ہو جاتی ہے۔ جب بھی کوئی مقدمہ عدالت میں آتا ہے تو ایک فریق درست اور دوسرا غلط ہوتا ہے۔ دونوں غلط اور دونوں صحیح تو خال خال ہوتے ہیں۔ اگر فیصلہ کرنے والا کسی جھوٹے سے گمراہ ہو جائے تو عدالتی نظام کی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ہمارے لڑکپن کا قصہ ہے ہمارا ایک ساتھی اسکول کا طالب علم گاڑی چوری کے کیس میں پکڑا گیا۔ ہم بھی پریشان ہوئے کہ یہ کیسا لڑکا ہمارے اسکول میں تھا۔ جان پہچان کی وجہ سے اس کے پڑوسیوں کے ساتھ عدالت بھی پہنچ گئے۔ دلچسپ مکالمہ سننے کو ملا… وکیل استغاثہ… گواہ سے!! بتائو اس نے کس طرح گاڑی چرائی… گواہ بتاتا ہے کہ یہ گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا تھا۔ پھر اترا اور گاڑی چرا لی… دوسرا گواہ آیا… اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا… اس نے بھی یہی کہا کہ یہ شخص گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا تھا۔ پھر اترا اور گاڑی چرا لی… پولیس کی رپورٹ میں بھی یہی پڑھا گیا۔ اب وکیل صفائی آیا اور اس نے گواہوں پر جرح کے لیے دونوں کو بیک وقت بلا لیا… اس کے بعد صرف ایک سوال پوچھا کہ آپ کی گواہی تو میں نے بھی سن لی… گاڑی کا رنگ کیا تھا… پہلے نے تھوڑی توقف کے بعد کہا سفید… وکیل صفائی نے شکریہ اداکیا پھر دوسرے سے یہی سوال پوچھا تو دوسرے نے سوچا سفید ہی ہوگا ورنہ وکیل صاحب فوراً کہتے کہ غلط ہے… اس نے بھی کہہ دیا کہ سفید… اس کے بعد وکیل صفائی نے ایف آئی آر سامنے رکھی اور جج صاحب کو مخاطب کیا کہ اس میں بہت واضح لکھا ہوا ہے کہ گاری کا رنگ نیلا تھا… یہ گواہی اور پولیس کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ چند لمحوں میں ضمانت ہوگئی۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔ جامعہ کراچی کے ایک طالب علم رہنما پر قتل کا کیس تھا۔ الزام تھا کہ ایک طالب علم نے دوسرے کو پیچھے سے پکڑا اور کہا کہ آج تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔ اس کے بعد ملزم نے دو گولیاں ماریں اور وہ ہلاک ہو گیا۔ لیکن جب کیس ری اوپن ہوا تو پوسٹ مارٹم رپورٹ اور ایف آئی آر سامنے لائی گئیں… دونوں میں گولیاں پشت سے لگنے کی تصدیق تھی… تو پھر گواہوں کا بیان… وہ جھوٹے تھے… لیکن اگر ان کو یا اس قسم کے دوسرے جھوٹے گواہوں کو سزا دے دی جاتی تو آج چیف جسٹس کو نئے سرے سے یہ مہم چلانے کی ضرورت نہ پڑتی… پہلا واقعہ 1974ء کا ہے اور دوسرا 1984ء کا… گویا 45 برس تو کہیں نہیں گئے۔ اگر اس وقت سزا دی جاتی تو مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔
ہمارے خیال میں تو اصل خرابی دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے، ججوں میں اتنی اہلیت تو ہونی چاہیے کہ وہ مقدمے کو سمجھیں، گواہوں کو دیکھیں ان کی جرح پر نظر رکھیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ گواہوں کا ریکارڈ بھی کمپیوٹرائز ہوگا۔ اگر نہیں ہے تو ہونا چاہیے۔ چند لمحوں میں معلوم ہو جائے گا کہ آج جس عدالت میں وہ گواہی دینے آیا ہے اسی عدالت میں کتنی مرتبہ آچکا ہے۔ بسا اوقات ایک ہی دن میں ایک ہی وقت میں دو دو واقعات کا چشم دید گواہ بن جاتا ہے۔ عقل نہیں تو ٹیکنالوجی ہی استعمال کر لی جائے۔
گمراہ کرنے پر بھی غور کیا جائے تو سزا کس کو ہونی چاہیے جو گمراہ کرتا ہے یا جوگمراہ ہو جاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ ق میں اس کی مثال موجود ہے جب گمراہ ہونے والا اور گمراہ کرنے والا اللہ کے سامنے مکالمہ کریں گے اور ان کو جو جواب ملے گا۔ پاکستانی عدلیہ اس کی روشنی میں اپنا جواب بھی سوچ لے۔ جب شیطان کی وجہ سے گمراہ ہو کر اعمال بد کرنے والا شیطان پر الزام ڈالے گا تو شیطان جواب میں کہے گا کہ۔ اے میرے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ تو خود پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔ ویسے بھی برطانوی اور دیگر دنیاوی قوانین میں اکسانے اور گمراہ کر کے غلط کام کرانے والے کے لیے تو سزا ہے لیکن اصل سزا تو غلط کام کرنے والے کے لیے ہوتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مقدمے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا لیکن گواہوں اور گمراہ ہونے والے ججوں کو کیا سزا دی۔ ایسے مقدمات تو روز ہی کھل رہے ہیں جن میں تیس تیس سال بعد جھوٹے گواہوں کی وجہ سے گمراہ عدلیہ نے بے قصور لوگوں کو سزا سنائی تھی۔ اب چیف جسٹس اس گمراہ عدلیہ کو بھی سزا سنائیں اور جھوٹے گواہوں کو بھی۔ نظام خود ہی سدھر جائے گا۔ ایک بات امیر جماعت اسلامی پاکستان بار بار کہتے ہیں کہ ملک اس وقت سدھرے گا جب حکمران امامت کرے اور جج کے ہاتھ میں انگریز کی کتاب کے بجائے قرآن ہو… بس اسلامی قوانین کے مطابق عدالتی نظام اختیار کریں۔ یہ انگریزی عدالتی نظام تو سارے کا سارا گمراہ کن ہے۔