صحت پر سیاست

167

 

 

صحت ایک انسانی مسئلہ ہے۔ کوئی بھی شخص زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی بھی لمحے خرابی ٔ صحت کی ابدی سچائی اور اٹل حقیقت کا سامنا کر سکتا ہے۔ یہ مرحلہ کسی سیاست دان کو درپیش ہو یا حکمران کو یا معاشرے کے کسی عام شہری یا کسی اسیر کو ریاست اور حکومت کی پہلی ذمے داری یہی ہوتی ہے کہ مریض کو طبی امداد فراہم کی جائے۔ انسانی جان اور صحت کے معاملات شروع ہوتے ہی سیاست اور اختلاف کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں۔ ملک کا سابق حکمران خاندان ان دنوں ریاست وحکومت کے ساتھ اسی کیفیت سے دوچار ہے یا ریاست کو یہ مشکل اور نازک مرحلہ درپیش ہے جہاں انسانیت اور سیاست میں ایک حدِ امتیاز قائم کی جانی ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف اس وقت مختلف مقدمات میں قید وبند کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی بیٹی مریم نوازاور بھتیجے حمزہ شہباز بھی ایام ِ اسیری گزار رہے ہیں۔ نوازشریف عمر کے اس مرحلے میں جب فلک بوس شجر کو اندر سے دیمک لگ جانا عین تقاضائے فطرت ہوتا ہے۔ ساٹھ کے پیٹے میں انسانی صحت کے لیے مسائل کھمبیوں کی طرح اُگنے لگتے ہیں۔ نوازشریف ہی کیا اسی کی دہائی میں اُبھرنے والی سیاسی کلاس آصف زرداری، چودھری شجاعت حسین، شہباز شریف اور سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف صحت کے سنجیدہ مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ قید میں نوازشریف کی صحت کچھ زیادہ ہی بگڑنے لگی ہے۔ ہماری سیاست چونکہ اس حد تک کشیدگی اور آویزش کا شکار ہو چکی ہے کہ یہاں انسانی معاملات کو طنز ومزاح اور جگتوں کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ ہم انسانی صحت کو بھی سیاست کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ جیتا جاگتا انسان قبر میں اُتر جاتا ہے مگر ہم اسے اداکاری اور سیاست ہی سمجھتے رہتے ہیں۔ بامروت معاشروں کا یہ شعار اور چلن نہیں ہوتا۔ جس سیاست کے سینے میں دل نہ ہو وہ انسانوں کے کسی کام کی نہیں ہوتی۔ وہ انسانوں کو انسانیت کے بجائے وحشت کے قریب لے جاتی ہے۔ پھر باپ بیٹے کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور بھائی بھائی کے خلاف لشکر کشی پر اُتر آتا ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں سے اُبھرنے والی تاریخی کہانیوں میں واقعی جو سیاست رائج ہوتی ہے وہ دل سے عاری ہوتی ہے۔ وہ معاشرہ بھی اقدار سے خالی ہوتا ہے۔ وہاں اول وآخر توجہ اقتدار چھیننے، بچانے یا اسے طوالت دینے پر مرکوز ہوتی ہے۔ اقتدار کے گرد گھومنے والی سیاست سے انسانیت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے اور پھر ایک سازش دوسری سازش کو جنم دیتی ہے۔ ایسے معاشرے انارکی کا شکار ہوتے ہیں۔ برصغیر میں راجوں مہاراجوں کے محلات میں پلنے والی سازشوں اور حکمران مغلیہ خاندان میں جنم لینی والی کہانیوں کا نتیجہ کیا نکلتا رہا؟ یہی نا کہ پھر یہ سلطنتیں رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہوتی رہیں۔
نوازشریف کی صحت کا معاملہ خاصا سنجیدہ ہے۔ اس کا احساس وادراک وزیر اعظم عمران خان کو بھی ہوا ہے اسی لیے انہوں نے وزراء کو اس معاملے پر بیان بازی سے روک دیا ہے۔ نوازشریف کا خاندان ان کی صحت کی خرابی کا ذمے دار حکومت کر گردانتا ہے۔ علاج میں تاخیر کو ان کی صحت کی خرابی اور بگاڑ کی وجہ قرار دے رہا ہے۔ معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتے ہی حکومت اب نوازشریف کا علاج ہر اچھے اسپتال میں کرانے کو تیار نظر آتی ہے خواہ وہ اسپتال لندن اور امریکا ہی کا کیوں نہ ہو۔ بعض لوگوں کو اس میں ڈیل نظر آرہی ہے۔ اس طرح وہ ایک بار پھر سیاست کھیل رہے ہیں۔ یہ ملک روز روز حادثات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی مگر اس سے ملک میں دہائیوں تک سیاسی کشمکش جاری رہی۔ ملک کی سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔ خود بھٹو کے جانشینوں نے اس تقسیم کو ختم نہ کیا ہوتا تو یہ عمل اب بھی جاری ہوتا مگر ملک میں پیپلزپارٹی کی کمزوری نے اس تقسیم کو مٹادیا۔ نوازشریف بھی تمام تر مقدمات اور الزامات اور عدالتی فیصلوں کے باجود ایک مقبول شخصیت ہیں، وسطی پنجاب میں ان کا سکہ اب بھی چلتا ہے۔ یہ جی ٹی روڈ کا علاقہ پاکستان کے اسٹرٹیجک اور سیاسی معاملات میں اہم کردار کا حامل ہے۔ اس لیے خدا نخواستہ نوازشریف کسی غیر فطری انجام کا شکار ہوئے تو یہ داغ حکومت کے دامن سے چمٹ اور چپک کر رہ جائے گا اور اس کے اثرات ملکی سیاست پر تادیر قائم رہیں گے۔ مولانا مارچ کرتے رہیں اور حکومت مارچ سے نمٹتی رہے مگر نوازشریف کی صحت وسلامتی کے معاملے میں حکومت کو اب فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔