بلدیہ کراچی کا محکمہ انسداد تجاوزات ’’ محکمہ تجاوزات میں تبدیل

90

کراچی (رپورٹ: محمد انور) بلدیہ کراچی کا محکمہ انسداد تجاوزات حکام کی چشم پوشی کی وجہ سے ’’محکمہ تجاوزات ‘‘ میں تبدیل ہوگیا ہے جس کے بعد نہ صرف مختلف پلوں کے نیچے بلکہ سرکاری دفاتر میں بھی تجاوزات قائم کرنا شروع کردی ہیں۔ ’’نمائندہ جسارت‘‘ کے سروے کے مطابق محکمہ لینڈ اینٹی انکروچمنٹ تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں اب شہر کے مختلف علاقوں کے ساتھ بلدیہ کی سرکاری عمارتوں میں بھی خلاف قانون تعمیرات کرنے میں مصروف ہے۔ ان تمام غیر قانونی سرگرمیاں موجودہ سینئر ڈائریکٹر بشیر صدیقی کی مبینہ اجازت اور نگرانی میں چل رہی ہیں۔ سروے کے مطابق محکمہ انسداد تجاوزات نے نیپا پل کے نیچے راشد منہاس روڈ پر اپنا غیر قانونی اسٹور قائم کرلیا ہے۔ اسی طرح کشمیر روڈ پر بالائی گزر گاہ کے نیچے بالمقابل چیس غیر قانونی گودام بنایا گیا ہے۔ ایک غیر قانونی اسٹور ناظم آباد فلائی اوور کے نیچے سر شاہ سلمان روڈ پر بنایا گیا ہے۔ یہ تینوں خلاف قانون گودام دراصل ’’انکروچمنٹ ‘‘ ہیں ۔ جہاں محکمہ اینٹی انکروچمنٹ کے عملے کے دفاتر بھی بنائے گئے۔ مذکورہ تمام مقامات پر کم و بیش ایک ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے جبکہ یہاں جو تعمیرات کی گئی ہیں اس کی اجازت بھی سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی سے نہیں لی گئی۔ یہ بھی خیال رہے کہ جمعہ کے روز جوبلی کے علاقے میں واقع ’’کیٹل کمپاونڈ ‘‘ میں بھی محکمہ نے اپنے غیر قانونی دفاتر قائم کیے ہیں جس کا افتتاح اسمارٹ سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ نے خود کیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میٹروپولیٹن کمشنر کی جانب سے تجاوزات قائم کرنے والوں سے جرمانہ وصول کرنے کی غرض سے چالان جاری کرنے پر پابندی کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کی آمدنی میں کروڑوں روپے کی کمی ہوچکی ہے۔ جبکہ تجاوزات ہٹانے کے لیے آپریشن بھی صرف ان مقامات پر کیا جارہا ہے جہاں سے غیر قانونی انکم ہونے کا امکان ہے۔ مجموعی طور پر شہر کے تمام علاقوں کی سڑکوں کے قریب فٹ پاتھوں اور بڑے بازاروں کے اندر تجاوزات ہنوز قائم ہیں۔ جسے ہٹانے کا اختیار بلدیہ کراچی کے پاس ہے مگر یہ تجاوزات نہیں ہٹائی جارہیں۔ انہیں نہ ہٹانے کی مد میں ماہانہ کم و بیش 5 کروڑ روپے بھتہ حاصل کیا جاتا ہے۔ سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کے حوالے سے ان کے ماتحت افسران برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’سینئر ڈائریکٹر نے بغیر پیسے کے ان سے ملنے پر پابندی عاید کردی ہے‘‘ ، سینئر ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ انہیں ہر ماہ ڈپٹی میئر سمیت سب ہی کو بھاری رقم پہنچانی ہوتی ہے۔ نمائندہ جسارت نے اس ضمن میں ان کا مؤقف لینے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے موبائل کال ریسیو ہی نہیں کی جبکہ ایس ایم ایس کا جواب بھی نہیں دیا۔