مولانا فضل الرحمن کا ہدف

255

مولانا فضل الرحمن کیل کانٹے سے لیس ہو کر اسلام آباد میں قدم دھرنے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے خاتمے تک دھرنا جاری رہے گا، ہمارے ساتھ مدرسوں کے بچے نہیں، حکومت کے ستائے ہوئے لوگوں کا اژدحام ہوگا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بے گھری کا عذاب سہنے والوں کا ایک سیلاب ہوگا جو حکومت کو تنکے کی طرح بہا لے جائے گا اور عمران خان کو سونامی کا مفہوم بھی معلوم ہوجائے گا۔ اس معاملے میں سیاسی مبصرین کئی گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کہا کرتے تھے جسے دھرنے کا شوق ہے آئے ہم کنٹینر بھی فراہم کریں گے اور کھانا بھی دیں گے، مگر جب سے مولانا صاحب نے دھرنے کا اعلان کیا ہے ساری شیخیاں دھری کی دھری رہ گئی ہیں اور شیخ صاحب نے پیغام رسائی شروع کردی ہے۔ موصوف نے مولانا صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ راولپنڈی نہ آئیں یہاں پر ڈینگی پھیلانے والے مچھر بہت ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا اسلام آباد میں دھرنا دینا چاہتے ہیں اور شیخ جی پنڈی والوں سے ڈرا رہے ہیں۔ گویا دال میں کچھ کالا ہے جس نے کچھ کچھ کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ’’کچھ کچھ‘‘ کے لیے خطرے کا الارم بجا دیا ہے۔ کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا اتنے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں کہ انہیں مزید مانجھنے کی کوشش کرنے والوں کے ہاتھ زخمی ہوجائیں گے۔ عمران خان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والوں نے مولانا کو اپنے اشارے کے پیچھے لگا لیا ہے ورنہ مولانا 2020ء سے پہلے اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ عمران خان کی سیاسی شہادت کے متحمل کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں ہوسکتی۔ یوں بھی مولانا اپنی سیاسی شہادت کے ماتم میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر سیاست امکانات کا کھیل ہے اور کھیل میں فائول تو ہوتے ہی رہتے ہیں سو، اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کو آگے لانے والوں نے کہنی مارنے کا تہیہ کرلیا ہو۔ مقتدر طبقہ عوام سے وعدہ خلافی کرنے کو سیاست کا حصہ سمجھتا ہے مگر جب ان سے وعدہ خلافی کی جائے یا ان کی اُمید پر پورا نہ اُترا جائے تو یہ ایک سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔
عمران خان ایک ایسے خوش بخت انسان ہیں بدبختی جن کی تاک میں رہتی ہے، اب یہ بدبختی نہیں تو کیا ہے کہ وہ قول و فعل کے اعتبار سے ناقابل اعتبار ہوگئے ہیں، ان کا بیانیہ بھی بدبختی بن چکا ہے، اپنی پیش رو حکومتوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرا قرار دینا ہی ان کا سیاسی منشور ہے۔ ٹی وی اینکرز کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا حکومت سے زیادہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ وہ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ موجودہ حالات میں دھرنا کیوں دیا جارہا ہے اور مولانا کا مقصد کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ مولانا مارچ کریں گے یا دھرنا بھی دیں گے، اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ مولانا خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتے اور شیخ رشید کی طرح شیخیاں بھی نہیں مارتے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ سوال بھی پریشان کن ہے کہ مولانا اتنے پُریقین کیوں ہیں؟ اور ان کی ثابت قدمی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی حیرانی نے ہمیں حیران کردیا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سیاست دان اور سیاسی مبصرین وطن عزیز کی سیاسی تاریخ اور سیاسی نشیب و فراز سے ہی لاعلم ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ کوئی بھی سیاست دان تھپکی کے بغیر حکومت کو دھمکی نہیں دیتا۔ مولانا صاحب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال پورے کرے گی۔ مقتدر طبقے نے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کو مدت پوری کرنے کا پورا موقع دیا تھا حالاں کہ حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکتی۔ عمران خان کا دھرنا دھرا کا دھرا ہی رہ گیا تھا مگر تھپکی دینے والوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور بالآخر عمران خان کو وزیراعظم بنادیا۔ بات رسوائی کی ہے مگر سچ یہی ہے کہ وزارت عظمیٰ کی مسند گدی بن گئی ہے۔ ’’سجادہ نشیں‘‘ جسے چاہے گدی پر بٹھا سکتا ہے۔ مولانا تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں ان کا ہدف عمران خان کی طرز حکمرانی ہے سو، اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں یوسف رضا گیلانی بنا دیا جائے۔
ؤوزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بھی وہی مقاصد ہیں جو ’’را‘‘ کے ہیں۔ واقعی! تجربہ بولتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کہتے ہیں کہ غربت، جہالت، مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا جائے، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے مارچ کیا جائے تو وہ خود بھی ایسے مارچ میں لانگ بوٹ پہن کر شمولیت کرنے میں فخر محسوس کریں گے، جو حکمران اپوزیشن کو مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کے لیے مارچ کا مشورہ دے، احتجاج کی ترغیب دے اسے حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔ بزدار صاحب کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ درست ہے۔ انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کا ارشاد گرامی کہ ہر جمعہ کو کوئی مولوی امن خراب کرنے کے لیے نکل آتا ہے۔ چودھری صاحب آپ کا مسئلہ مولوی نہیں اسلام ہے اور جہاں تک امن کی خرابی کی بات ہے تو یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ جہاں بے روزگاری ہو اور ستم بالائے ستم یہ کہ مہنگائی نے عوام کا جینا اجیرن کردیا ہو وہاں امن ممکن ہی نہیں۔ دراصل امن وامان کا تعلق طرزِ حکمرانی سے ہوتا ہے، حکمران نااہل ہو تو بدامنی اور لاقانونیت کی حکمرانی ہوتی ہے۔
سیاست دان سیاست کرنے کے بجائے جگت بازی کرنے لگیں تو پارلیمنٹ ہو یا دربار نوٹنکی بن جاتا ہے۔ وطن عزیز کا المیہ یہی ہے کہ یہاں سیاست کو مذاق بنادیا گیا ہے جو حکمران آج کے بارے میں سوچتے ہیں ان کا کل بے کلی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کہتے ہیں کہ ملک کے تمام سیاسی چودھری مرجائیں تب بھی مولانا فضل الرحمن وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ شیخ جی بھول رہے ہیں مگر قوم کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ وہ چند سال قبل کی بات یاد نہ رکھ سکے۔ حیرت ہے شیخ جی اس حقیقت سے کیسے انحراف کرسکتے ہیں یا بھول سکتے ہیں کہ جب ظفراللہ جمالی اور مولانا فضل الرحمن وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے مقابل تھے تو شیخ رشید کے نئے پیرو مرشد عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا تھا اور ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہوگئے تھے، گویا مولانا فضل الرحمن عمران خان کے پسندیدہ امیدوار تھے جو شخص ایک ووٹ سے ہارا ہو اس کے وزیراعظم بننے کے امکان کو مسترد کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟۔ شیخ جی زیادہ مت سوچیے کیوں کہ مولانا کو فی الحال وزارت عظمیٰ سے کوئی دلچسپی نہیں ان کا ہدف کوئی اور ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی اور مشیر خاص فردوس عاشق اعوان نے مولانا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی حلوہ کھانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا نہ دیں کیوں کہ ان کو دھرنے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ اچھا ہوتا اگر وہ یہی مشورہ امپائر کا حلوہ کھانے والوں کو دیتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن تو وزیراعظم عمران خان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ عمران خان نے دھرنا دیا تھا تو کہا جارہا تھا کہ دھرنے والوں کو دھرلیا جائے گا مگر ’’کچھ کچھ‘‘ والوں نے دھرنے کے عوض عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے نواز دیا۔ مولانا کا مسئلہ وزارت عظمیٰ نہیں عمران خان کا بیانیہ ہے جس نے پوری دنیا میں قوم کو رسوا کردیا ہے۔ اگر عمران خان قوم کو کرپشن سے نجات دلانا چاہتے تو کرپٹ لوگوں کو اپنی کابینہ میں شامل نہ کرتے۔