کیوں اس درجہ اندھیرا ہے یہاں

162

وہ محکم چٹانوں کے بجائے جھاگوں پر انصاف کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ مقتدر اداروں کے خلاف فیصلہ دینا، اس پاگل پن کی جرات کسی میں نہیں۔ بے حسی اور بے شعوری کے سمندروں میں انسانیت ایک تماشا ہے جانوروں اور وحشیوں کے لیے جس میں کوئی سبق نہیں۔ اس خبر نے دلوں کو بری طرح مجروح کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان کو بری کردیا ہے۔ پوری دنیا نے یہ منظر دیکھا تھا کہ معصوم بچوں کے والدین کو کس بے دردی کے ساتھ ان کی آنکھوں کے سامنے حکو متی ادارے کے اہلکاروں نے گو لیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ بات چو نکہ مقتدر اداروں کی تھی اس لیے عدالت بھی اندھی ہوگئی۔ وہ سچ جو پوری دنیا کو نظر آیا ہماری عدالت کو نظر نہیں آیا۔ یہ درست ہے کہ عدالتیں شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں لیکن کیا محترم جج کو معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں کس طرح شہادتوں کو ضائع کیا جاتا ہے۔ کس طرح مقتول کے ورثا کو ڈرا دھمکا کر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مقدمے کی پیروی سے تائب ہوجائیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر لاکھوں لوگوں نے ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا کہ کس طرح واقعے کے بعد شہادتوں کو دھو کر مٹادیا گیا۔ محمد خلیل اور ان کے خاندان کے قاتلوں کے خلاف شہادتیں مٹانا کیا بڑی بات تھی۔
سانحہ ساہیوال میں ریاست مجرم ہے۔ اس کے ادارے مجرم ہیں۔ ان اداروں نے اپنے شہریوں کے خلاف پہلی مرتبہ جرم نہیں کیا۔ رائو انوار نے چار سو سے زائد شہریوں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کیا۔ اسے سزا دینا تو درکنار کسی میں اتنی جرات نہیں کہ اسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرسکے۔ کراچی میں ایک نوجوان کو رینجرز اہلکاروں نے کیمرے کے سامنے گولی ماری۔ وہ گڑگڑاتا رہا مجھے اسپتال لے چلو، اس کا خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنے ہی خون میں گر کر مر گیا۔ سانحہ ساہیوال میں محترم جج نے قرار دیا ہے کہ ’’گواہوں نے جائے وقوع پر گولیاں چلتے ہوئے نہیں دیکھیں‘‘۔ کراچی میں رینجر کے جس اہلکار نے نوجوان کو گولی ماری تھی اس کا چہرہ، اس کا ایکشن، لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں نے دیکھا۔ وہ ویڈیو اس دن یو ٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیو تھی۔ لیکن اس مقدمے کا کیا ہوا کسی کو نہیں پتا۔
کیا مقتدر اداروں کو اس بات کا احساس ہے کہ آج ان کے اور عوام کے درمیان کتنی بڑی خلیج پیدا ہوگئی ہے جو وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ اس خلیج کی بدولت ہم مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں۔ ماضی میں بھی اس خلیج کی پروا نہیں کی گئی آج بھی نہیں کی جارہی ہے۔ پاکستان کے عوام آج تک بھٹو کی پھانسی کو نہیں بھولے۔ سب کو یقین ہے بھٹو کو ہمارے اداروں نے مروایا ہے۔ آج نواز شریف کے ساتھ بھی جو کچھ ہورہا ہے انگلیاں ایک ہی سمت اٹھ رہی ہیں۔ ہزاروں لوگ ہیں جن کے پیاروں کو غائب کردیا گیا ہے۔ لواحقین ان کی تلاش میں در بدر پھر رہے ہیں۔ یہ لاپتا کن کی تحویل میں ہیں۔ یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔ لیکن کہاں جائیے۔ کس سے فریاد کیجیے۔ کچھ پتا نہیں۔
آفرین ہے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو، جنہوں نے مقدمے میں انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے حوالے سے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’’واقعے کے گواہوں نے ملزمان کے بری ہو جانے پر کوئی اعتراض نہ ہونے کا بیان بھی دیا ہے‘‘۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فیصلے کے حق میں یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ مقتول خلیل کے بیٹے عمیر نے بھی ملزمان کو پہچاننے سے انکار کیا اور ان کے بری ہونے پر اعتراض نہ ہونے کا بیان دیا ہے۔ عدالت نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ دیگر گواہوں کی طرح اس وقوعے میں زخمی ہونے والے گواہ بھی ملزموں کی شناخت نہ کر سکے۔ فیصلے میں بس ایک کسر رہ گئی ہے:
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
سانحہ ساہیوال کے بعد ہی خبریں آنی شروع ہوگئیں تھیں کہ ورثا پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمے سے دستبردار ہوجائیں۔ شواہد کے معاملے میں بھی کچھ ایسی ہی خبریں تھیں۔ یقینا کہیں نہ کہیں کوئی تو ہے جو قاتلوں کو بچارہا ہے۔ یہ لوگ کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے سرکاری اہلکاروں سے قانون سے ماورا کام کراتے ہیں۔ اس دوران اگر یہ اہلکار کسی غلطی کی بناپر قانون کی زد میں آجائیں تو پھر ہر ممکن طریقے سے انہیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں تحفظ دیتے ہیں تاکہ ان کے نیٹ ورک کے لیے کام کرنے والے دیگر اہلکار ان سے بد دل نہ ہوں۔ ان سے جڑے رہیں۔
اس ملک کی تباہ حالی میں ادارے ہی نہیں عدالتیں بھی برابر کی شریک ہیں جو ان کے غیر قانونی کاموں کو قانونی چھتری فراہم کرتی ہیں۔ دمشق کی جیل میں ایک اہلکار نے امام ابن تیمیہ سے کہا: ’’شیخ ہمیں معاف کردیجیے ہم تو ملازم ہیں‘‘۔ شیخ نے کہا: ’’اگر تم لوگ نہ ہوتے تو یہ ظالم ظلم نہ کر پاتے‘‘۔ امام احمد بن حنبلؒ کو قید کیا گیا تو جیلر نے ان سے سوال کیا: ’’اے ابو عبداللہ ظالموں اور ان کے مددگاروں کے انجام کے حوالے سے جو حدیث روایت کی جاتی ہے کیا وہ صحیح ہے؟‘‘۔ امام نے جواب دیا: ’’ہاں بالکل صحیح ہے‘‘۔ جیلر نے کہا ’’تو کیا میں بھی ظالموں کا مددگار ہوں‘‘؟ امام حنبل نے فرمایا: ’’ظالموں کے مددگار وہ ہیں جو تیرے بال کاٹتے ہیں، تیرے کپڑے دھوتے ہیں، تجھ سے کچھ خریدتے ہیں، تجھے کچھ بیچتے ہیں جب کہ تم! تم تو خود ظالم ہو‘‘۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے ’’ظلم کرنے والوں کی طرف مت جھکو تمہیں آگ چھو لے گی‘‘۔
سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کو شک کی بنا پر گولی ماری گئی تھی۔ قاتلوں کو شک کی بنا پر بری کردیا گیا۔ اس ملک میں کچھ بھی قطعیت کے ساتھ نہیں۔ ادارے خود ہی شک کرتے ہیں، خود ہی فیصلہ دیتے ہیں اور خود ہی ملزموں کو انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔ کسی شہری کو قتل کرنے اور لاپتا کرنے کے لیے بس شک ہی کافی ہے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ریاست کا پورا ڈھانچہ ان کو تحفظ فراہم کرے گا۔ ریاست اس بات کو یقینی بنارہی ہے کہ اس کے اہلکاروں کو شہریوں کو شکار کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اہلکار انجام کے خوف کا شکار نہ ہوں۔ ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ رائو انوار سے لے کر سانحہ ساہیوال اور لاپتا افراد تک سب اسی ریاستی پالیسی کا شکار ہیں۔
جمہوریت میں جہاں سول سپرمیسی ہے وہاں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، قانون اور آئین کے تحت۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے وہاں کشمیر میں جو کچھ بھی ظلم ہورہا ہے قانون اور آئین کے تحت ہورہا ہے۔ بنگلا دیش میں حسینہ واجد اسلام پسندوں کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے، قانون اور عدالتوں کا سہارا لے کر کر رہی ہے۔ امریکا میں سیاہ فاموں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے دنیا کے سامنے ہے۔ فرانس کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخالفین کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی جمہوریت کا علمبردار بن کر کیا۔ ظالموں کو ظلم سے صرف ایک ایسا نظام روک سکتا ہے جس میں عوام کے حقوق کا تعین اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کیا ہو اور حکمرانوں کو قانون بنانے اور تبدیل کرنے کا حق نہ ہو۔ ایسا صرف وحی پر مبنی نظام میں ممکن ہے۔ خلافت میں ممکن ہے۔ عہد نبوی سے لے کر1924تک اسلامی قوانین اور عدالتیںہمیشہ ریاست اور حکومت پر بالادست رہیں نہ کہ ان کے تابع۔ اچھے خلفا بھی آئے اور برے بھی لیکن کسی کو اس ترتیب میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ جمہوریت ایلیٹ طبقے کی آمریت کا نام ہے۔ یہ نظام اعلیٰ طبقے کی خدمت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ہمارے جیسے نیو کلونیل غلامی سے گزرنے والے ممالک میں ریاست کے ادارے استعماری پالیسیوں کے ٹھیکیدار ہوتے ہیں نہ کہ عوام کے حقوق کے۔