مولانا فضل الرحمن کا اعلان کردہ دھرنا کئی موڑ مڑنے کے بعد پشاور موڑ کا رخ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہر ے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ سیاست کو دھوکے اور مفادات اینٹھنے کے نعم البدل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اس لیے سیاست میں جب بھی کوئی غیر یقینی صورتحال جنم لیتی ہے جو معمول سے ہٹ کر ہو تو تب ہرکوئی سمجھتا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور کچھ نہ کچھ سیا سی کھچڑی ضرور پک رہی ہے۔ بہر حال پچھلے چند دنوں سے دھرنے کے حق اور مخالفت میں الفاظ کی جو جنگ ہو رہی تھی اور اس دوران نجانے کتنے ہی ایسے موڑ آئے جو قوم میں ایک نیا ہیجان پیدا کر نے کا باعث بنے اور اب جب آخر میں ہم دیکھتے ہیں تو کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق یہ سارا شور محض قوم کو بے وقوف بنانے کے لیے مچایا جارہا تھا۔ پہلے کہا گیا کہ ڈی چوک میں نان اسٹاپ دھرنا ہوگا یعنی احتجاجی مظاہرین اس وقت تک ڈی چوک میں فروکش رہیں گے جب تک وزیر اعظم استعفا دے کر گھر نہیں چلے جاتے یہاں تک کہا اور سنا گیا کہ ڈی چوک سے نئے انتخابات کا شیڈول لے کر اٹھیں گے۔ اس دو ٹوک اور غیر لچک وار موقف کے خلاف حکومتی بھولے پہلوان بھی نہ صرف میدان میں نکل آئے بلکہ انہوں نے اپنی وزارتوں اور ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے وہ اودھم مچائی کہ الحفیظ الامان، کیا فواد چودھری کیا فردوس عاشق اعوان، کیا شیخ رشید، شہریار آفریدی، پرویز خٹک اورشوکت یوسفزئی حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی اس معرکے میں نہ صرف پیچھے رہنا گوارہ نہیں کیا بلکہ اپنے بیانات کے ذریعے مولانا کو تائو دلانے کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں ہونے دیا جس سے یوں لگ رہا تھا گویا مولانا کی یلغار کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ چھڑنے والی ہے لہٰذا اس صورتحال سے قوم کا بے یقینی کے حالات سے دوچار ہونا فطری امر تھا لیکن جب دونوں جانب سے پہلے مرحلے میں مذاکرات پر آمادگی، دوسرے مرحلے میں کمیٹیوں کی تشکیل اور تیسرے مرحلے میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو دونوں جانب سے ایک دوسرے کے لیے نہ صرف خیر سگالی اور مثبت آراء پر مبنی جذبات سامنے آنے لگے بلکہ ان کے درمیان دشمنی کی برف بھی بتدریج آہستہ آہستہ پگھلنے لگی جو اب اس حد تک پگھل چکی ہے کہ اب اگر ایک طرف مولانا ڈی چوک اور دھرنے کے اپنے فیصلے اور اعلان سے رجوع کرچکے ہیں تو دوسری جانب حکومت نے بھی اپنے سخت موقف میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں مولانا کو اسلام آباد میں داخلے اور پر امن احتجاج کی اجازت دے کر کشادہ دلی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے وہاں اپنے وزرا کو مولانا اور اپوزیشن بالخصوص بیمار نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف غیر سنجیدہ بیان بازی سے روک کر اپوزیشن اور پوری قوم کو ایک مثبت پیغام بھی دیا ہے۔ اس صورتحال کو بعض لوگ منفی رنگ دیتے ہوئے اسے جہاں مولانا کی سیاسی پسپائی اور ان کی اس پسپائی کو نواز شریف کو ملنے والے ریلیف کے تناظر میں حکومت اور مولانا کے درمیان طے پانے والے کسی مبینہ ڈیل کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں وہاں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست میں چونکہ کوئی بات بھی حرف آخر نہیں ہوتی اور مولانا صاحب چونکہ پاکستانی سیاست کے نبض شناس ہی نہیں اس میدان کے شہسوار بھی ہیں اس لیے وہ اپنے پتے کامیابی سے کھیل کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ اب جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان زیر بحث آزادی مارچ اور اسلام آباد جلسہ عام کے حوالے سے نہ صرف ایک تحریری معاہدہ طے پا چکا ہے بلکہ آزادی مارچ کے شرکا مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں کراچی سے اس جلسہ عام میں شرکت کے لیے اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکے ہیں تو ایسے میں جلسہ عام کی جگہ کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کرنے یا پھر جلسہ گاہ کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے جیسے اقدامات سے جہاں دو طرفہ اعتماد کو نقصان پہنچے گا وہاں اپوزیشن جماعتوں کے بعض راہنمائوں کی گرفتاری کی اطلاعات سے بھی پر امن سیا سی فضاء اور اپوزیشن کے پرامن سیاسی احتجاج کو پرتشدد بنانے کے خدشات کا جنم لینا بعید از قیاس نہیں ہوگا لہٰذا توقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے جمہو ریت کو کسی حادثے سے دو چار نہ کرنے اپنے وعدوں کا پاس رکھیں گے۔