توہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

122

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کی معافی قبل کرلی۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی جس میں فردوس عاشق پیش ہوئیں۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ اس ملک کےوزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں،آپ حکومت کی ترجمان ہیں اوراہم ذمہ داری پر فائز ہیں، آپ کاہرلفظ نپاتلاہوناچاہئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نےحلف لیاہواہےحکومت کی عزت کرتےہیں لیکن پریس کانفرنس نہیں کرسکتے، آپ نے پریس کانفرنس کےذریعےزیرسماعت مقدمات پراثراندازہونےکی کوشش کی،کبھی آپ نےدیکھاکہ ہم کس طرح زیرالتواکیسزکونمٹارہے ہیں،آپ چار پانچ سال کا ہمارا ریکارڈ دیکھیں، آپ حکومت ہیں ذمہ داری دکھائیں، حکومت کی اپنی میڈیکل بورڈ ٹیم نےکہاکہ نوازشریف کی حالت خراب ہے،  کبھی کوئی کہتاہےڈیل ہوگئی کیاعدالت پرپریشرڈالنےکی کوشش کی جاتی ہے۔

چیف جسٹس  اطہر من اللہ نے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان سے سوال کیا،کیاآپ ہماری ڈسٹرکٹ کورٹس گئی ہیں؟ وہاں ججز اور وکلا کیسے کام کر رہے ہیں، ہمارے سول ججز کی عدالتیں دوکانوں میں بنی ہوئی ہیں،سول ججز کے لئے ٹائلٹس بھی موجود نہیں ہیں، بہترہوتاکہ آپ سیاست کو عدالتوں سے دور رکھیں،کم سے کم کچھ کہنے سے پہلے اپنے وکلاسے پوچھ لیں،کبھی انتظامیہ کوخیال نہیں آیا کہ عام سائلین کے لئےسہولیات پیدا کرنی ہیں، میں وزیراعظم کا معاون ہوتا تواس طرح کی باتیں نہ کرتا، میں توقع کرتا ہوں جو کچھ آپ نے کہا وہ وزیراعظم نے آپ کو نہیں کہا۔

معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان  نے کہا کہ آپ کابہت شکریہ کہ جن چیزوں سےلاعلم تھی وہ مجھے بتایا، میں دانستہ طور پرعدالت کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، اگرمیرےالفاظ کی وجہ سےعدالت کی توہین ہوئی ہےتومعافی مانگتی ہوں، عدالت معافی دے آئندہ الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہوں گی، میں آپ کی ذات کو جانتی ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ  اس بات کو چھوڑ دیں، میری ذات کے بارے میں جوکچھ کہا جاتا ہے پروانہیں کرتااور میرے بارے میں جو کہیں مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اس عدالت نےلوگوں کےبنیادی حقوق کاخیال رکھناہے، جب کابینہ اس اعتماد کوتوڑے گی تونتیجہ اچھا نہیں ہوگا،عدالتی فیصلوں پرلوگوں کواعتمادہے، یہ عدالت آپ کو نوٹس نہیں کرنا چاہتی تھی، آپ کے پاس اہم ذمہ داری ہےآپ سے یہ توقع نہیں تھی۔

عدالت نےفردوس عاشق اعوان کے معافی مانگنے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے تھوڑی دیر کا وقفہ لینے کے بعد معاون خصوصی کی معافی قبول کرلی اور کہا کہ  عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ کا مقصد عدالت کی توہین نہیں تھا، آپ نئے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس کا تحریری جواب دیں۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عدالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ملزم کو خصوصی رعایت دینے کے لیے شام کے وقت عدالت لگائی گئی، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان کے بیان پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔