سوال تو تلخ نہیں

202

جے یو آئی کا آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے‘ آزادی مارچ کے اصل مقاصد کیا ہیں لیکن ہمیں تو نام پر بحث کرنا ہے‘ آزادی مارچ‘ نام اس لیے رکھا گیا کہ ملک کو غیر جمہوری رویے کے حامل حکمران سے نجات دلانا ہے‘ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے رائے عامہ تشکیل دے لیکن یہ حق کسی جماعت کو نہیں دیا گیا کہ وہ شہریوں کی آزادی سلب کرلے اسلام آباد آج سے نہیں کئی سال سے جتھوں کی زد میں ہے‘ چھوٹا شہر ہے اس لیے یہاں جتھوں کی آمد سے پورا شہر‘ اس کا تعلیمی نظام‘ کاروبار زندگی اور شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی بد ترین حد تک متاثر ہوجاتی‘ تعلیمی ادارے بند ہوجاتے ہیں‘ امتحان ملتوی کر دیے جاتے ہیں اور حتی کہ راستے بند ہوجانے سے مریض بھی اسپتال نہیں پہنچ پاتے۔
چار سال قبل تحریک انصاف اور عوامی تحریک دھرنا لے کر اسلام آباد پہنچی تھیں‘ پورے ایک سو چھبیس روز دھرنا دیا‘ آئی پی ایس پشاور کا افسوسناک واقعہ ہوا تو یہ دھرنا ختم ہوا‘ لیکن استعفا نہیں ملا‘ اب بھی آزادی مارچ کی قیادت استعفا مانگ رہی ہے‘ یہ نہیں ملنا‘ خود مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں کہ وزیر اعظم استعفا دیں گے‘ اگر استعفا نہ ملنے کا یقین ہے تو پھر آزادی مارچ کا مقصد کیا رہ جاتا ہے‘ اس سے شہریوں کی تکلیف میں ہی اضافہ ہوگا البتہ تسکین مل جائے گی کہ آزادی مارچ اسلام آباد لانے میں کامیاب ہوگئے۔
یہ کیسا آزادی مارچ ہے جس نے اسلام آباد کے شہریوں کے گلوں میں غلامی کا طوق ڈال دیا ہے کہ وہ اب اپنی مرضی سے نقل وحرکت بھی نہیں کرسکتے‘ اسلام آباد میں سبزیاں‘ پھل اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء حتیٰ کہ ادویات تک دوسرے شہروں سے آتی ہیں‘ ایک سو چھبیس دنوں کے دھرنے کے دوران یہاں یہ اشیاء کس قدر مہنگی مل رہی تھیں اس کا کسی کو احساس تک نہیں ہے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور شہر میں امن امان قائم رکھنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کہتے ہیں وہ آزادی مارچ پر بالکل نہیں گھبرائے ہوئے کیونکہ جو ڈر گرگیا وہ مر گیا‘ وزیر داخلہ کو کیا گھبراہٹ ہوگی انہیں تو پروٹوکول مل رہا ہے‘ جہاں جانا چاہیں گے روٹ لگ جائے گا اور ان کا قافلہ گزر جائے گا‘ حضور ڈرے ہوئے تو عوام ہیں‘ اس شہر کے باسی ہیں‘ جن کے بچے تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچ پائیں گے‘ مریض اسپتال نہیں جا پائے گا‘ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر تصادم ہوا تب بھی دوبارہ وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ ایک سوال پر وزیر داخلہ اعجاز شاہ اس قدر تلخ ہوئے کہا کہ کوئی گھبراہٹ نہیں میں ایسا کیا کروں کہ آپ کو یقین آئے کہ ہم گھبرائے ہوئے نہیں، کیا میں یہاں ڈانس کرکے دکھاؤں کہ آپ کو یقین آئے کہ میں گھبرایا ہوا نہیں‘ نہیں جناب یہ ڈانس والادھرنا نہیں ہے‘ وہ دھرنا گزر چکا ہے‘ پورے ایک سو چھبیس روز یہ دھرنا بیٹھا رہا تھا ڈانس کا موقع اس وقت تھا اس دھرنے کو تو اذان دے کر اٹھانا پڑے گا‘ 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کی اپیل پر پورے ملک میں اذانیں دی گئی تھی تب جاکر آزادی ملی تھی‘ اگر حکومت کو آزادی مارچ سے آزادی حاصل کرنی ہے تو ڈانس نہ کرے بلکہ اذان دے۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وزیر دفاع پرویز خٹک کہتے ہیں کہ ہم نے اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دے کر رسک لیا ہے، اگر معاہدہ توڑا گیا تو نتائج کی ذمے داری ہم پر نہیں ہوگی اسلام آباد میں جلسہ گاہ کا انتخاب جے یو آئی (ف) نے خود کیا ہے امید ہے کہ مولانا فضل الرحمن معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ پرویز خٹک نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) نے معاہدے میں کہا ہے کہ اگر آگے بڑھے تو قانونی کارروائی کی جائے جبکہ وزیراعظم کے استعفے یا دوبارہ انتخابات کے معاملے پر حزب اختلاف نے بات نہیں کی جے یو آئی (ف) نے مذاکرات میں اسلام آباد آنے تک کی شرط رکھی، حزب اختلاف کی تمام باتیں مانیں اب اگر خلاف ورزی کی تو کارروائی کریں گے اور پھر شکوہ نہ کیا جائے‘ اگر وزیر دفاع کی بات ہی حقائق ہیں تو پھر بھی سوال باقی رہتا ہے کہ دھرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا صرف شہریوں اذیت پہنچانا ہے ہاں اگر جے یو آئی اس حکومت سے نجات دلا دے یہ اتنا بڑا احسان ہوگا کہ قوم اس کے احسان کا بدل نہیں دے سکے گی لیکن اگر دھرنا دے کر بیٹھ جانا ہے راستے بند کیے رکھنے ہیں اور بلا مقصد وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں کوئی تعمیری کام کریں‘ رائے عامہ تشکیل دیں‘ انتخابات کے عمل کی بہترین نگرانی کریں‘ اور اپنے حق میں نتائج حاصل کرلیں‘ یہ ہر سال دو سال کے بعد دھرنوں اور جتھوں کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی مناسب نہیں‘ کیا یہ بات معلوم ہے کہ جب سے آزادی مارچ شروع ہوا ہے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر کیا گزرتی رہی‘ اور اب تو حد ہی سے معاملہ گزر گیا ہے کہ مودی سرکار نے کشمیر میں اب انتظامی حد بندی بھی کردی ہے‘ کوئی جانتا ہے اس نئی انتظامی حد بندی کا مقصد کیا ہے‘ جہاں چڑھائی کرنی چاہیے وہاں کوئی جا نہیں رہا‘ بلاوجہ اسلام آباد کے شہریوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔