کیا ہیں یہ نوے دن اور چودہ روز

226

پاکستان کے مسلمان اتنے پْر مزاح اور بذلہ سنج ہیں کہ موت اور زندگی کے معاملات میں بھی سنگین مذاق کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی ادبا اور شعرا تک محدود نہیں بلکہ ملک کے سنجیدہ ترین عہدوں پر متمکن افراد بھی قوم و ملک کے ساتھ ایسے ایسے سنگین مذاق کر گزرنے سے گریز نہیں کرتے جن کے متعلق کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً اگرموت کی سزا پانے والے یا والوں کے متعلق آپ یہ خبر سنیں کہ عدالت نے موت کا حکم سنانے کے دو دو تین تین سال بعد جب ان مجرموں کے کیسوں پر دوبارہ غور کیا تو ان کو بے قصور پاتے ہوئے نہ صرف ان کی سزا کو معطل کر دیا بلکہ ان کی رہائی کے پروانے بھی جاری کر دیے تو آپ اس سنگین مذاق پر ہنسیں گے یا روئیں گے۔ اب جیل حکام پریشان ہیں کہ کریں تو کیا کریں اس لیے کہ ان مجروں کو عدالت کے حکم کے مطابق مقررہ تاریخ پر سفرِ آخرت پر روانہ کردیا گیا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موت جیسے فیصلے اگر عدالت میں اتنی لا پروائی سے کیے جاسکتے ہیں تو وہ عام فیصلے جن میں کم از کم زندگی جیسی لوٹ کر نہ آنے والی شے کے چلے جانے کا احتمال نہیں ہوتا تو ان فیصلوں میں کس درجہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہوگا؟۔
ہمارے عدالتی نظام پر کئی ایسے سوالات ہیں جن پر بات کرنے کی ہلکی سے ہلکی سزا ’حوالات‘ قرار دی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں کئی منزلہ عدالتیں ہیں۔ بہت چھوٹی، پھر اس سے بڑی، پھر اس سے بڑی اور پھر بہت ہی بڑی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب عدالتوں میں ان ہی تعلیمی اداروں کے ڈگری یافتہ ہوتے ہیں جو سب سے چھوٹی عدالت سے لیکر ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ہوتے ہیں۔ وکلا سے لیکر جج اور پھر ان کے ’’چیف‘‘ جج سب کے سب کسی ایسی ویسی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے فارغ التحصیل نہیں ہوتے۔ ان میں سے کوئی ایک وکیل، جج یا ججوں کا چیف بھی ایسا نہیں ہوتا جس نے آئین و قانون کی کوئی اور کتاب پڑھ کر ڈگری حاصل کی ہوتی ہے۔ سب نے ایک جیسے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہوتی ہے تو نچلی سطح سے لیکر اعلیٰ سطح تک کی عدالتوں کے فیصلے ایک دوسرے کی نفی میں کیوں آتے ہیں؟۔ عدالت چھوٹی ہو یا بڑی، جس مجرم کو جو بھی سزا سنائی جاتی ہوگی وہ انصاف کے سارے تقاضوں اور قانون کے پورے ضابطوں کو سامنے رکھ کر ہی سنائی جاتی ہوگی تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہی سارا کیس، مکمل تفصیل اور ہر قسم کے ثبوت و شواہد کے ساتھ جب چھوٹی سے بڑی عدالت کے پاس جاتا ہے تو بدل کیسے جاتا ہے اور اگر چھوٹی عدالتوں کے فیصلے بڑی عدالت میں بالکل ہی برعکس بن جایا کرتے ہیں تو پھر ملک میں سب عدالتوں کو بڑا ہی کیوں نہیں کردیا جاتا تاکہ جب بھی کسی کو عدالت سے انصاف طلب کرنا ہو تو اسے نیچے سے اوپر کی جانب دوڑ لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اگر اس بات کا نچوڑ نکالا جائے تو یہی بات سامنے آئے گی کہ وہ عدالت جو بظاہر چھوٹی عدالت ہوتی ہے مگر عدالت ہونے کے باوجود بھی گاؤں دیہات کی ’’پنچائت‘‘ سے بھی کہیں گئی گزری ہوتی ہے اس لیے کہ پنچائت بھی جب کوئی فیصلہ کردیتی ہے تو وہ فیصلہ بھی حرف آخر ہوتا ہے لیکن جس عدالت کا فیصلہ جوتوں کی نوک پر رکھا ہو وہ پھر کس بات کی عدالت ہوئی۔
عدالتیں چھوٹی ہوں یا بڑی، وہاں بھی بیٹھے ہوئے لوگ انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی ایک انسان بھی ’’نسیان‘‘ سے آزاد نہیں لیکن کیا جو بھی خطا کار ہوتا ہے، اس کی خطاؤں پر قانون کی کوئی گرفت نہیں ہوتی۔ دنیا کا وہ کون سا آئین اور قانون ہے جو خطا کاروں کی گرفت نہیں کرتا۔ اگر ہر خطا قابل گرفت ہے تو کیا آج تک کسی بھی بڑی عدالت نے اپنے سے چھوٹی عدالت کے کسی غلط فیصلے پر کسی جج، کسی وکیل یا اس عدالت کے چیف کو اپنی عدالت میں طلب کرکے یہ پوچھا کی تمہارے پاس کون سے ملک کے قانون کی ڈگری ہے اور کیوں نہ تمہیں آئین و قانون ہونے کے باوجود آئین اور قانون کے خلاف دیے جانے والے فیصلے پر عہدے سے برطرف کرکے وہی سزا نہ سنائی جائے جو تم نے ایک بے قصور کے حق میں صادر کی تھی۔ کیا زندگی اور موت جیسے فیصلے سنانا کھیل ہے۔ ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا حق رکھنے والا ماردیا جائے؟۔ کیا ایسا مذاق کرنے والا کوئی وکیل، جج یا چیف اتنے حساس عہدوں پر بیٹھنے کا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
وہ کون سا ادارہ ہے جہاں ایسے سنگین بذلہ سنج اور پْر مزاح افراد موجود نہیں۔ میرے بال اب کھچڑی ہی نہیں بلکہ ’خشکہ‘ بن چکے ہیں یہ سنتے ہوئے کہ 90 دن کی توسیع چاہیے اور 14 دن کا جسمانی یا عدالتی ریمانڈ۔ ایک تو 90 دن کا مطلب پاکستان کی کسی بھی ’غیر قانونی‘ کتاب میں 90 دن ہے ہی نہیں اور نہ ہی 14 دن کا مطلب 14 دن ہی ہے۔ 90 دن نوے نوے کرتے کرتے کئی کئی برسوں پر مشتمل ہوجاتے ہیں اور 14 دن چودہ چودہ سال بن جاتے ہیں۔ 90 دن اس لیے طلب کیے جاتے ہیں کہ امن و امان کو بحال کیا جائے گا اور 14 دنوں کا جسمانی یا عدالتی ریمانڈ کا مقصد کسی بھی ایسے فرد کو جس کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار کرلیا جاتا ہے، اس سے تحقیقات کی جائیں اور مجرم ثابت ہونے پر اسے عدالت میں پیش کیا جاسکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ایجنسی بھی حکومتِ وقت سے 90 دن کا عرصہ مانگتی ہے تو پھر وہ اپنے مقررہ وقت میں ہنگامی صورت حال پر قابو کیوں نہیں پاتی اور اگر ہنگامی صورت حال ایسی ہو کہ اس پر 90 روز میں قابو پانا ممکن نہ ہو تو پھر 90 دن ہی کیوں طلب کیے جاتے ہیں؟۔ اسی طرح 14 روز کا ریمانڈ کیوں طلب کیا جاتا ہے جبکہ ریمانڈ لینے والوں کو اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ مجرم سے اقبال جرم کرانے یا اس کے خلاف ثبوت و شواہد ڈھونڈنے کے لیے 14 دن نا کافی ہوںگے۔ پھر یہ کہ کیا کسی کو مجرم قرار دیے جانے سے قبل حبسِ بیجا میں رکھنا ظلم نہیں اور وہ بھی سال ہا سال؟۔
کراچی میں رینجرز آج سے تیس برس قبل صرف 90 دن کے لیے آئے تھے۔ ہر روز یہی بات سننے میں آتی ہے کہ کراچی میں امن و امان قائم ہو چکا ہے اور کراچی کی روشنیاں بحال ہو گئی ہیں۔ بات بے حقیقت بھی نہیں اور کسی گلی محلے میں کسی بھی قسم کی کوئی ابتری نظر نہیں آتی۔ اگر یہ سچ ہے اور یقینا ہے تو اب تو یہ ’’90‘‘ دن کی مزید توسیعیوں کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے۔ کیا ہر 90 دن کے بعد 90 دن کی توسیع پسندانہ کارروائی کی کبھی کوئی حد بھی آئے گی۔ یہی سلسلہ 14 روزہ جسمانی اور عدالتی ریمانڈوں کا ہے۔ دعوے تو بڑے بڑے جرائم اور ملک کی دولت کو بے تحاشا انداز میں لوٹ کر ملک سے باہر منتقل کرنے کے ہیں لیکن مہینوں اور برسوں تک عدالت میں کسی کے خلاف بھی ثبوت و شوہد پیش نہیں کیے جا سکے ہیں اور 14 روزہ ریمانڈ ہیں کہ ہر 14 روز کے بعد مزید طلب کر لیے جاتے ہیں۔ میں بہت ہی صاف صاف اور واشگاف الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے سب نہایت بھیانک اور سنگین مذاق کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب یہ 90 جمع 90 اور 14 جمع 14 کا سلسلہ بالکل ختم ہوجانا چاہیے اور جو محکمہ، ایجنسی یا ادارہ اس کا مطالبہ کرے اس سے وقت معین طلب کرنا چاہیے اور اگر وہ مقررہ وقت میں اپنے اہداف مکمل نہ کرسکے تو اس پر کڑے جرمانے لگانے چاہئیں تاکہ جس جس کی عزت نفس پر ہاتھ ڈالا گیا ہو وہ یا تو ذلیل و خوار ثابت ہو یا پھر وہ ادارے، ایجنسیاں اور محکمے عوام و خواص کی نظروں میں عزت و وقار گنواں بیٹھیں جو کسی بھی فرد کو اٹھانے کے بعد اس کی عزت و وقار کی دھجیاں محض شک کی بنیاد پر اڑانے کے در پے ہوں۔