طالبان تحریک اور حکومت قسط 8

145

طالبان اور ان کی حکومت نے بلاشبہ کارہائے نمایاں انجام دیے۔ مگر ان کی تشہیر اور دنیا کو دکھانے کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ و وسیلہ نہ تھا۔ گویا انہیں ذرائع ابلاغ جن کے ذریعے جنگیں جیتی جاتی ہیں کی اہمیت و ضرورت کا ادراک نہ تھا۔ ناقدین، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سیاسی حلقے اور کئی ممالک ذرائع ابلاغ کے ذریعے طالبان کے خلاف متعصبانہ، غیر حقیقی، یکطرفہ و لغو باتیں کرتے و پھیلاتے اور دنیا اسے سچ و حقیقت تسلیم کرتی۔ انہیں وحشی، تعلیم و تہذیب سے نا آشنا متعارف کراتے۔ قتل طالبان ہوتے جبکہ دنیا کو بتایا جاتا کہ طالبان مخالفین کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ طالبان میڈیا کا استعمال کرتے اور ابلاغی توسط سے اپنا مؤثر بیانیہ دنیا کے سامنے رکھتے تو یقینی طور پر ان کے خلاف منفی و گمراہ کن پروپیگنڈا بے اثر ہوتا۔ افغان جہاد کے معروف کردار طورن اسماعیل 1997ء میں طالبان کے قیدی بنے۔ تین سال بعد بڑی آسانی سے فرار ہوکر ایران پہنچ گئے۔ طورن اسماعیل فرار میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ قندھار میں قیدی کے بجائے ایک نظر بند کی حیثیت سے رکھے گئے تھے۔ طالبان کی حکمت یہ تھی کہ جب پورے ملک میں امن قائم ہوگا تو انہیں رہا کردیا جائے گا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مخالف بڑی شخصیات جنگ کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندہ رحیم اللہ یوسفزئی کو اپنے انٹرویو میں طورن اسماعیل نے تسلیم کیا کہ طالبان نے ان پر کسی قسم کی سختی کی اور نہ ہی زندان میں ڈالے گئے تھے۔ طورن نے یہ تک کہا کہ ’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم طالبان کی مدد کرتے، مگر افسوس کہ ہم ان کے مد مقابل کھڑے ہوگئے‘‘۔
حزب وحدت کے سربراہ عبدالعلی مزاری کے قتل کے واقعے کو بھی حقیقت کے برعکس پیش کیا گیا۔ ہلاکت کے اس واقعے کے باب میں طرح طرح کی من گھڑت کہانیاں بیان کی گئیں۔ ان کی آڑ لے کر تعصبات پھیلائے گئے۔ طالبان کے کئی سرکردہ رہنماء اس کے بارے میں اصل تفصیل پیش کرچکے ہیں۔ جن کے مطابق مارچ1995ء میں طالبان کابل کی حدود میں داخل ہوئے۔ حزب وحدت، احمد شاہ مسعود اور دوسرے جنگجووں نے فرار کی راہ اختیار کرلی۔ عبدالعلی مزاری برقعے میں اپنے چند کمانڈروں کے ہمراہ کابل سے نکلنے کوشش کے دوران گرفتار کر لیے گئے۔ فوراً ملا عمر کو اطلاع دی گئی۔ جنہوں نے مزاری کو ہیلی کاپٹر میں قندھار منتقل کرنے کی ہدایت کی۔ مقصد انہیں قیام امن تک اپنی حفاظت میں رکھنے کا تھا۔ ہیلی کاپٹر غزنی کی فضاء عبور کررہا تھا کہ اس دوران عبدالعلی مزاری کے ایک کمانڈر ابوذر نے طالب سے کلاشنکوف چھین لی جس کی اس وقت آنکھ لگ گئی تھی اور پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اتارنے کا کہا اور متذبذب پائلٹ پر گولی چلائی جو اس کے بازو میں لگی۔ چناںچہ ہیلی کاپٹر اتارا گیا۔ عبدالعلی مزاری اور اس کے کمانڈر اتر کر بھاگ نکلے۔ اتفاقاً اس وقت طالبان عساکر گاڑیوں میں غزنی شہر کی طرف جار ہے تھے۔ انہوں نے ہچکولے کھاتے ہیلی کاپٹر کو دیکھ لیا تھا ساور بھاگنے والے افراد پر فائرنگ کی۔ ملا عمر نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ واقعہ غیرارادی تھا، انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ افراد کون تھے۔ ملا عمر نے عبدالعلی مزاری کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔ چوں کہ طالبان کے پاس ابلاغ کا موثر و جدید ذریعہ نہ تھا۔ اور یہ قتل دنیا کو یوں باور کرایا گیا کہ مزاری فضاء سے زندہ پھینکے گئے۔
عبدالعلی مزاری نے دوستم، احمد شاہ مسعود اور جنرل عبدالمالک سے مل کر ہزاروں طالبان کو بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ملا عمر انہیں قیدی رکھنا چاہتے تھے۔ ملا عمر نے احمد شاہ مسعود کے قتل پر بھی ناخوشی کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ وہ نہ قاتلوں کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی حکومت کا ہاتھ ہے۔ طالبان املاک فصل و باغات تباہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ کابل کے شمال میں پنج شیر کی جانب پیش رفت کے دوران باغات سے مسلسل فائرنگ کے پیش نظر ملا عمر سے رہنمائی مانگی گئی کہ آیا باغات کو نشانہ بنایا جائے۔ تو اس پر علماء نے فتویٰ دیا کہ محض اس باغ کو نشانہ بنایا جائے جہاں سے زیادہ حملے ہوتے ہوں تاکہ باقی باغات کو نقصان نہ پہنچے یہاں تک کہ طالبان کو کسی کے باغ سے میوہ کھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ ننگرہار کے گورنر مولوی عبدالکبیر نے ایک بار اپنے سپاہیوں کے لیے باغ خرید لیا تاکہ وہ اس سے انگور کھائیں۔ یقینا طالبان سے ارادی و غیر ارادی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ جن کا بعد میں ان کی جانب سے اظہار بھی ہوا۔ البتہ ڈاکٹر نجیب کی پھانسی کو جائز سمجھا۔ یقینا ڈاکٹر نجیب بڑی زیادتیوں کے مرتکب تھے۔ روس کے پروردہ تھے اور دور صدارت میں بھی ان کا کردار مجرمانہ تھا۔ بہر حال ان تمام زیادتیوں و جرائم کے باوجود ڈاکٹر نجیب کے ساتھ عفو و در گزر کا معاملہ ہونا چاہیے تھا۔ وہ طالبان کے قیدی نہ تھے۔ اپنوں کی دغا نے اقوام متحدہ کے دفتر میں پناہ لینے پر مجبور کیا تھا۔ ڈاکٹر نجیب اپنے لوگوں کا ڈسا تھا ان سے پاکستان کے دوستوں نے بھی وفا نہ کی۔ زندہ رہتے تو یقینا بہت سارے تلخ حقائق کہتے اور لکھتے اور بہت سارے لوگ منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔
طالبان کے بعض سرکردہ رہنماء بامیان کے بدھا کے مجسموں کو ٹینک کے گولوں سے نشانہ بنانے کے اقدام کو درست سمجھتے ہیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ ملا عمر نے علماء سے رائے لی، جنہوں نے مجسمے توڑنے کا فتویٰ دیا یعنی یہ مسئلہ شرعی سمجھا گیا۔ پاکستان کی حکومت نے طالبان حکومت سے اس اقدام سے گریز کی درخواست کی تھی۔ یہاں تک کہ یونیسکو کی درخواست پر قطر کی حکومت کے وزیر خارجہ شیخ احمد عبداللہ زیدال محمود کی قیادت میں نامور علماء قندھار گئے۔ ملا عمر اور حکومتی مناصب پر موجود افغان علماء سے ملاقات کی جن میں عالم اسلام کے مشہور و جید عالم دین علامہ یوسف القرضاوی، مصر کے مفتی اعظم فرید واصل، قطر کے شیخ عبدالقادر العماری، قطر کے شیخ محمد الراوی، محمد ھیشم الخیاط، عرب کے فہمی ہویدی اور قطر کے وزارت خارجہ کے چند علماء شامل تھے۔ یہ وفد 11مارچ 2001ء کو گیا تھا۔ ان علماء کے جانے کے بعد طالبان حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لے لینا چاہیے تھا۔ خود طالبان کہتے تھے کہ بدھا کے مجسموں کی عبادت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ بعض طالبان رہنمائوں نے اسے احتجاج کا جواز فراہم کیا۔ طالبان حکومت کے ایک گشتی سفیر رحمت اللہ باہمی نے 10 مارچ 2011ء کو امریکا کے جنوبی کیلی فورنیا کی یونیورسٹی لاس اینجلس میں اپنے خطاب میں توجہی پیش کی تھی کہ ’’ان کے ملک افغانستان پر سیاسی و معاشی پابندیاں عائد ہیں۔ دنیا قحط زدہ افغانستان میں خوراک کی قلت، ادویات کی عدم دستیابی سے بچوں کی اموات، خواتین کی زچگی کے دوران اموات کی روک تھام میں مدد دینے کے بجائے ان مجسموں کو محفوظ بنانے، اس کی نوک پلک سنوارنے کی فکر میں ہے۔ ان کے مطابق یونیسکو اور سویڈن کی ایک این جی او اس مقصد کے لیے پروجیکٹ لے کر آئی تھی۔ حکومت نے ان کے سامنے درپیش سنگین صورتحال رکھی اور اپنی مشکلات و ضرویات کو مشروط کیا۔ طالبان نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اپنے عوام اور بچوں کی زندگیاں عزیز ہیں اور انہیں ان مجسموں کی کوئی پروا نہیں ہے‘‘۔ بہر حال حقائق خواہ کچھ بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بدھا کے مجسموں کو نقصان پہنچانا طالبان کے لیے بدنامی کا باعث بنا۔
(جاری ہے)