غیر سنجیدہ سیاسی ماحول میں کچھ ذمے دارانہ بات بھی ہونی چاہیے‘ قومی مسائل پر گفتگو بھی ضرور ہونی چاہیے‘ جب آزادی مارچ کی تاریخ طے ہورہی تھی‘ میڈیا میں مختلف تاریخ دی جارہی تھی‘ ابھی اس کا باقاعدہ اعلان بھی نہیں ہوا تو سینیٹر (ر) حاجی غلام علی نے بتادیا تھا کہ حتمی تاریخ ستائیس اکتوبر ہی ہے‘ کچھ بھی ہوجائے یہ تاریخ تبدیل نہیں ہوگی‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت کل جماعتی کانفرنس کی تمام جماعتوں کو بھی اس تاریخ کا علم ہے‘ حاجی غلام علی کے ساتھ پرانی یاد اللہ ہے‘ وہ مولانا فضل الرحمن کے سمدھی ہیں‘ معروف تاجر رہنماء ہیں‘ تاجر تنظیموں کے ساتھ ان کے ملک گیر رابطے ہیں… کشمیر ایک انتہائی سنجیدہ موضوع ہے‘ لیکن حکومت کے صحن میں کوئی ایسا پھول نہیں کھلا‘ جس کی خوشبو کشمیریوں تک پہنچ رہی ہو‘ بھارتی سرکار کشمیریوں کی راہ میں مسلسل کانٹے بچھا رہی ہے‘ پانچ اگست کے اقدام کے بعد بھارت کی مرکزی سرکار نے مزید آگے بڑھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں نئی قانون سازی شروع کردی ہے‘ نئی انتظامی حد بندیاں کرنا شروع کردی ہیں۔ ستمبر کے آخری چھ سات روز اس لحاظ سے بہت اہم گزرے ہیں یہی اہم دن تھے جب فیصلے ہوئے لیکن یہ سب کچھ کشمیری قیادت کو قبول نہیں ہے تاہم اس دوران پاکستانی سیاست دھرنے کی نذر ہے اور پاکستان کی جانب سے حکومت کی سطح پر آکسیجن کا جھونکا انہیں نہیں مل رہا‘ ان کی مشکلات کی گرہیں مزید سخت ہوتی چلی جارہی ہیں۔
کشمیر ایک کروڑ 30لاکھ انسانوں کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جن کی ریاست کے بڑے حصے پر ایک سامراجی ملک بھارت نے محض طاقت کے بل پر، فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرکے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل کو سبوتاژ کیا ہے اس نے اپنے دستور کی دو دفعات (۳۵-الف، اور دفعہ ۳۷۰) کو تبدیل کرنے کے لیے، ترمیمی ضابطے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور سیاسی عہدوپیمان کا خون کرکے ضم کرنے کا خطرناک کھیل کھیلا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر، بدترین کرفیو اور شہری و کاروباری زندگی کی مکمل معطلی سے دوچار کیا جاچکا ہے پوری ریاست کے مظلوم، نہتے اور بے نوا شہری 9لاکھ بھارتی مسلح فوجیوں کی سنگینوں تلے ایک ہولناک اجتماعی جیل خانے کی چکّی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں‘ ہماری حکومت اور اقوام متحدہ بحیثیت ادارہ‘ ایک ہی پیج پر ہیں‘ بدستور بزدلانہ لاتعلقی کی روش پر قائم ہے اور لفظی لیپا پوتی سے زیادہ ایک قدم آگے بڑھنے پر آمادہ نظر نہیں آتیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادیں قصہ پارینہ ہیں اور اس عالمی تنظیم کو اپنے چارٹر کے تحت قیامِ امن اور تصفیہ طلب تنازعات کی دفعات سے بھی کوئی غرض نہیں۔
اب دوطرفہ مذاکرات کے وعظ اور اپیلوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیںبھارت کی اصل دل چسپی مسئلہ کشمیر کے حل سے نہیں، صرف اس دبائو سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہوگی یہ دبائو تحریک ِ جہاد نے اس پر ڈالا ہے اور اب اسلام آباد کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ جہاد کی بات نہ کی جائے‘ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میرے حکم کا انتظار کیا جائے‘ سو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اب ان کے حکم کی منتظر ہیں‘ یہ حکم دیا جانا ہے اور نہ اس کی امید ہے‘ مگر نہ جانے کیوں وزیر اعظم کی بات پر اعتبار کیا جارہا ہے… کیا وزیر اعظم کو علم ہے کہ امریکا، بھارت، اسرائیل اور ان کے حواریوں نے ایک عرصے سے جہاد کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلا رکھی ہے اور اسے ’دہشت گردی‘ اور ’تشدد‘ کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے انگریزی صحافت میں ’مجاہد‘ کو اب ’جہادی‘ اور ’دہشت گرد‘ بناکر پیش کیا جاتا ہے اس پس منظر میں سب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی قوم کا ایک اصولی اور تاریخی موقف ہے جس سے ہٹ کر کسی فرد کو اس قوم کی قسمت سے کھیلنے کا اختیار نہیں۔ کسی کو یہ حق اور مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ پاکستانی قوم اور مسلمانانِ جموں و کشمیر، قائداعظم سے لے کر آج تک جس موقف پر قائم ہیں مسلمانانِ پاکستان اور مسلمانانِ جموں و کشمیر اس علاقے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے اپنے حقِ خودارادیت سے کم کسی بات کو کبھی قبول نہیں کرسکتے ماضی میں بھی، جس کسی نے پاکستانی قوم کے اصولی موقف سے انحراف کی کوشش کی ہے، اس کا حشر عبرت ناک ہوا ہے ہمارے قومی دستور کی رُو سے بھی استصواب رائے ہی کے ذریعے اس ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے اور وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ہی پاکستان سے ان کا رشتہ قائم ہوگا، کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے ایک کروڑ 30لاکھ انسانوں کی قسمت سے کھیلے۔
جب سیاسی اور پُرامن جدوجہد کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تو کشمیریوں نے بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے اسی حق کو حاصل کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس نے آج بھارت اور عالمی رائے عامہ کو اسے ایک زندہ انسانی مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا ہے ماضی میں اقوام متحدہ کے ایک سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا: ’’کشمیر کے بارے میں قراردادوں پر کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ اس لیے اگر بھارت اور پاکستان دونوں درخواست کریں، تب ہی اقوام متحدہ کچھ کرسکتی ہے ورنہ وہ صرف دوطرفہ مذاکرات کی اپیل ہی کرسکتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، قوموں کے درمیان معاہدات اور بین الاقوامی یقین دہانیاں کسی زمانی تحدید کے پابند ہیں‘ ہر گز نہیں۔