کاش! ایسا ہو!

145

عزت مآب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کے ڈھانچے کو ڈھانچا بنادیا ہے ان کے فرمان کے مطابق زیر سماعت مقدمے میں جو گواہ پیش کیے گئے وہ موقع واردات پر موجود ہی نہیں تھے اس کے باوجود انہوں نے جھوٹی گواہی دے کر عدالت کو گمراہ کیا، ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، گواہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کی سزا عمر قید ہے، چیف صاحب کے فرمان سے انکار ممکن نہیں کہ توہین عدالت کی تلوار ہر شریف آدمی کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، خدا جانے کب گر پڑے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جھوٹے گواہوں کی فیکٹری تو ہر عدالت میں موجود ہوتی ہے، وکلا گواہوں کو جو بیان توتے کی طرح رٹاتے ہیں گواہ وہی بیان عدالت میں توتے کی طرح بولنے لگتا ہے۔قابل غور امر یہ ہے کہ وکلا کے بارے میں چیف صاحب کا کیا خیال
ہے؟ سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہمارے نظام کے چودھری تو ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرپائے ہیں کہ عمر قید کی سزا کے مجرم کو کتنے سال جیل میں رکھا جائے، عموماً عمر قید کا سزا یافتہ مجرم سات سال کے بعد رہا ہوجاتا ہے اور اگر نیک چال چلن کی رعایت مل جائے تو پانچ چھ سال کے بعد ہی رہائی کا پروانہ دے دیا جاتا ہے۔ عمر قید کی سزا عموماً 14 سال ہوتی ہے جو دن رات ملا کر 7 برس بنتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا ذہنی کمزوری ہی کہا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ نظام عدل کے انجر پنجر ڈھیلے کرنے میں جھوٹے مقدمے کی سماعت اور پیروی کرنا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جعل سازوں کو اپیل در اپیل کے حق سے نوازنا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی عدالت جھوٹے مقدمات کی سماعت نہیں کرتی۔ نظام عدل کا سب سے بڑا المیہ اور خرابی یہی ہے کہ ہماری عدالتیں جھوٹے مقدمے بازوں کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔ چیف صاحب کا فرمان ہے کہ وہ جھوٹے گواہوں کو ہرگز ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ خدا جانے ہمیں یہ گمان کیوں ہونے لگا ہے کہ چیف صاحب وزیراعظم عمران خان سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں اور یہ خدشہ بھی ستا رہا ہے کہ چیف صاحب کا یہ فرمان ’’کسی کو چھوڑوں گا نہیں سارے جھوٹے گواہوں کو جیل میں ڈال دوں گا‘‘ کا نعرہ ان کے متاثرین میں اضافہ نہ کردے۔ سوال یہ ہے کہ چیف صاحب جھوٹے مقدمے بازوں کو جیلوں میں کیوں نہیں ڈالتے، انہیں یہ احساس کیوں نہیں کہ جھوٹے مقدمات ہی
میں جھوٹے گواہوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات کی اپیل کیوں سنی جاتی ہے۔ 2011ء میں دو آدمیوں نے چھریاں مار کر ایک شخص کو ہلاک کردیا تھا، ٹرائل کورٹ نے ایک ملزم کو بری کردیا اور دوسرے کو سزائے موت سنائی تھی، ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی جس کے خلاف عدالت عظمیٰ کی زنجیر عدل ہلائی گئی تو بریت کی نوید سنائی گئی اور جھوٹے گواہوں کو طلب کرلیا گیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ چیف صاحب کی عدالت جھوٹے گواہوں کو عمر قید کی سزا سناتی ہے یا عمران خان کی طرح نعرے بازی کرتی ہے۔ قابل احترام چیف صاحب اگر نظام عدل کو نظام سقوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو جھوٹے مقدمے بازوں کو جیل میں ڈالیں، ایسے مقدمات کی پیروی اور سماعت کو قابل جرم قرار دیں، اپیل در اپیل کے شیطانی چکر پر لاحول پڑھیں تو یہ ایک ایسا کارنامہ ہوگا جسے قوم تاقیامت یاد رکھے گی اور ملک کی عدالتی تاریخ ان پر فخر کرے گی۔